اس مضمون کو اسکی طوالت کے باعث مندجہ
ذیل چارحصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔
۞ طاغوت سے کیا مُراد ہے
۞ طاغوت کا انکار ۔ ایمان اور کُفر میں فرق
۞ طاغوت کا انکار اور ممتاز علماء دین و مشائخ
۞ طاغوت کےانکار اور تکفیر میں فرق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاغوت
سے کیا مراد ہے؟
عربی زبان کا یہ لفظ طاغُوت لفظ طغیٰ سے نکلا ہے جس کے معنی حد سے تجاوز کر جانا یا سرکشی کے ہیں جیسے دریا میں طغیانی آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو پہلی چیز بنی نوع انسان پر فرض کی وہ طاغوت کا انکار یا اسکا ردّ اور اللہ کی توحید کا اقرارتھا۔ اسکا ثبوت ہمیں قران میں سورۃ النحل کی آیت میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
اور یقینناً ہم نے ہر اُمت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ الله کی عبادت کرو اور طاغُوت سے بچو۔ سورۃ النحل، آیت ۳٦
سوایمان کی جانب پہلا قدم طاغوت کے انکار سے ہی شروع ہوتا ہے ۔ یہاں پر طاغوت سے مراد ایسی تمام شخصیات اورہستیاں ہو سکتے ہیں جو اللہ کے حکم کے خلاف یا اسکی نازل کردہ ہدایت یعنی قران و حدیث کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے فیصلے دیں، حکم و فتوے جاری کریں یا کوئی نظریہ، نظام و فلسفہ پیش کریں اورپھر ان شخصیات یا انکی تعلیمات اورفیصلوں کو من وعن مانا جائے یا کسی بھی طرح سے انکی تقلید، پرستش اورعبادت کی جا ئے۔ لہذا طاغوت میں والدین سے لے کر استاد، ملک کا حکمران، قاضی یا جج، سردار، سپہ سالار، پارٹی کا صدر یا کوئی سیاسی و مذہبی رہنما، مفتی، عالم و پیر یا درویش وغیرہ یا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
ایک مسلمان کا کام صرف اور صرف ایک اللہ کی پرستش اور صرف اسی کے احکام بجا لانا ہے۔ دراصل لا الہٰ الاللہ کا مطلب بھی یہی ہے یعنی پہلے تمام طاغوتوں اورخداوؤں کا ردّ کیا جائے اور پھر ایک اللہ کی واحدانیت اور اسکی ربوبیّت کا اقرار ہو۔ اسی لئے اگر غور کریں تو کلمۂ شہادت بھی لفظ ’’لا‘‘ سے شروع ہوتا ہے کہ ’’نہیں ہے کوئی اور رب۔ ۔ ۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے‘‘۔ لہذا ایک اللہ کی واحدانیت اور اسکی توحید کا اقرار دیگر تمام خداؤوں اور طاغوتوں کے انکار سے شروع ہوتا ہے خواہ وہ خود زمین پر خدا بن بیٹھیں یا لوگ انکے بعد انہیں زبردستی الہٰ مان لیں۔
طاغوت اور اسکے انکار کی اس اہمیت کو سمجھنے کے لئے آئیے دیکھتے ہیں کہ کسی انسان کو رب یا خدا بنا لینا سے اسلام میں کیا مراد ہے۔
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا خدا بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹےکو بھی حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔ سورۃ التوبہ، آیت ۳۱
عدی بن حاتم ؓ (جو اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائی تھے) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتےسنا کہ ان (اہل کتاب نے) نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا خدا بنا لیا ہے(التوبہ۳۱) تو پوچھا کہ اے نبی یہ لوگ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسل نے فرمایا، یقیناً کرتے تھےکہ جب یہ کسی چیزکو حلال قراردیتےتولوگ اسےحلال سمجھنےلگتےاورجب حرام قراردیتے تووہ اسےحرام مان لیتے۔ اوریقیناً یہی ان کی پرستش ہے ۔ترمذی، کتاب التفسیر
لہذا جب ایک اسلام کا نام لیوا اللہ کے علاوہ کسی اور ہستی کو یہ حق یا اختیار دے دے کہ وہ اسکے لئے اپنی مرضی سے حلال و حرام کے فیصلے کرے یا وہ اس ہستی کی تعلیمات کو قران و حدیث کے احکام اور فیصلوں پر فوقیت دے تو یہ قدرت و اختیار کا شرک ہوگا اور ایسا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی جانتے بوجھتے قران کی کسی آیت یا صحیح حدیث کے فیصلے کا انکار کرے تو اس سے مُراد اللہ کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرنا ہوگا۔ مثال کےطور پر اگرایک مسلمان صلوٰۃ یا نماز کو فرض سمجھتے ہوئے اسکی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی سے کام لے تو وہ گنہگار ہوگا لیکن اگر کوئی یہ کہے کی صلوٰۃ فرض ہی نہیں یا پھر اپنی مرضی سے صلوٰۃ ادا کرنے کا کوئی نیا طریقہ وضع کر لے تو یہ قران کے احکام کا انکار اور اسکی حدود کی خلاف ورزی و تجاوز ہوگا اور ایسا شخص مسلمان نہیں رہے گا یا اسکا مسلمان ہونے کا دعوٰی محض دعوٰی ہی ہوگا۔
طاغوت بظاہر تو ایک لفظ ہے لیکن اس میں ایسے تمام لوگ، عقائد اور دینی رسوم و رواج آجاتے ہیں جن کا دباؤ یا اثر انسان کو اللہ کے اصلی احکام سے دور لے جاتا ہے۔ لہٰذا طاغوت میں جہاں بت پرستی شامل ہے وہیں قبر پرستی یا اپنے اباؤاجداد کی بدعات کو من و عن دین کا حصہ مان لینا اوران میں شامل ہوجانا بھی طاغوت کا حصہ بننے کے مترادف ہے جیسا کہ ہمارے ہاں کسی کے مرنے پرایصال ثواب کی محفلیں جمتی ہیں جن میں قران خوانی یا گٹھلیوں اور چنے کے دانوں پرقرانی آیات و اذکار پڑھ کر اسکا ثواب مُردے کو بخش دیا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر اللہ کی نذرونیاز جیسے عید میلاد و شب برات کا حلوہ، گیارہویں کی نیاز یا کُونڈے کا پکوان کھانا یا اسکا حصہ بننا بھی طاغوت میں حصہ داری ہے کہ ان میں سے کوئی بھی رسم اسلامی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کرامؓ سے ثابت نہیں۔ سو طاغوت کوئی پیر یا مولوی بھی ہو سکتا ہے اور ذرائع ابلاغ بھی جنکی بات دین کی بات پر فوقیت لے جائے اور اسی طرح دیگر مذاہب سے لیے گئے عقائد و رسومات بھی اس میں شامل ہونگے جو زبردستی اسلام کا حصہ بنا دیئے گئے۔ سو اللہ کے احکام کی اتنی کھلی خلاف ورزی کرنے والے کو بھلا کیسے مسلمان یا مسلم امت کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے؟ اور اگر کوئی شخص ایسے طاغوتی کام کرنے کے باوجود مسلمان ہونے کا دعوےدار بنے تو کیا ہم پر یہ فرض نہیں کہ ہم ایسے شخص کو توحیدِخالص کی دعوت دیں؟
موجودہ دور کے دیگر طاغوتوں کے علاوہ سوشل پریشریا سماجی دباؤ بھی سرفہرست ہے یعنی یہ خوف کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ اگر ہم نے مشہور زمانہ یا پرانی رسوم رواج کی خلاف ورزی کر دی جو ایک ’’اچھا‘‘ پاکستانی مسلمان ہونے کی لئے لازمی ہیں۔ جیسے ہمارے معاشرے میں اگرکوئی اپنے والدین کی وفات پر قران خوانی، سوئم و قُل یا چالیسواں کی بدعات کا انکار کرے تو کیا اسے اسکے عزیز و اقارب اور معاشرہ ایک اچھی اولاد یا ایک اچھا مسلمان سمجھیں گے؟ پھر ہمارے ہاں شادی بیاہ پر بہت سی رسومات بھی ہندومت یا دیگر مذاہب سے ادھار لی گئی ہیں انکا حصہ بننا، یا محلے سے آنے والی میلاد کی دعوت کا انکار نا کرپانا، اسی طرح مزاروں پر جانا، پیری فقیری وغیرہ سب طاغوت کی ہی مثالیں ہیں کہ ہم یا جانتے بوجھتے اور یا پھر معاشرے کے دباؤ میں انکا حصہ بن جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ کہ برصغیر پاک و ہند یا جنوبی ایشیا میں ایک نیا اسلام وجود میں آگیا ہے جس میں ہندومت سے لے کر بدھ مت اورعیسائیت سب ہی کے عقائد و تہوار شامل ہیں۔ پرویز مشرف کا تحفہ ماڈریٹ یا لبرل اسلام بھی اسی کی ایک اور مثال ہے۔
لفظ طاغوت قران میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کچھ آیات ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں۔
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے پھر جو شخصطاغُوت کو نہ مانے اور الله پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیاجو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سننے والا جاننے والا ہے۔ سورۃ البقرہ، آیت ۲۵٦
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُالطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
الله ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست طاغُوت ہیں انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ سورۃ البقرہ، آیت ۲۵۷
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِوَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا وہ بُتوں اور طاغُوتوں کو مانتے ہیں اور کافروں سے یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں سے زیادہ راہِ راست پر ہیں۔ سورۃ النساء، آیت ۵۱
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا
کیا تم لوگوں نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز تم سےپہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ طاغُوت سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دو رجا ڈالے۔سورۃ النساء، آیت ٦۰
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِفَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا
جو ایمان والے ہیں وہ الله کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغُوت کی راہ میں لڑتے ہیں سو تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو بے شک شیطان کا فریب کمزور ہے۔ سورۃ النساء، آیت ۷٦
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ الله کی عبادت کرو اور طاغُوتسے بچو پھر ان میں سے بعض کو الله نے ہدایت دی اوربعض پر گمراہی ثابت ہوئی پھر ملک میں پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ سورۃ النحل، آیت ۳٦
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ
اور جو لوگ طاغُوتوں کو پوجنے سے بچتے رہے اور الله کی طرف رجوع ہوئے ان کے لیے خوشخبری ہے پس میرے بندوں کو خوشخبری دے دو۔ سورۃ الزمر، آیت ۱۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر بیان کی گئی آیات کے بعد اب ہمارا یہ کہنا کہ طاغوت کا انکار کئے بغیر اپنے آپکو مسلمان کہنا محض ایک کھوکھلا دعویٰ ہے ایک غیر معمولی یا عجیب و غریب بات نہیں رہتی کہ یہ بات قران میں ہی واضح کردی گئی ہے کہ ایمان و عقیدہ کی تکمیل کے لئے اللہ کے علاوہ ایسے تمام عوامل کا انکار لازمی ہے جنہیں ہم نے کسی بھی صورت میں الہٰ بنایا ہو۔ لہذا ایک شخص جو اپنے آپکو مسلمان کہتا ہے اس میں اتنی ہمت تو ہونی ہی چاہیئے کہ وہ ان فرقوں، انکے جُھوٹے خداؤں اور انکے معاشرے میں پھیلائے ہوئے غلط عقائد و رسومات کو پہچانتا ہواور انکا حصہ نہ بنے۔ لیکن اگر وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے انکے خلاف کھل کر لڑ نہیں پاتا تو ایسا شخص ایک کمزور مسلمان ہوگا لیکن کم از کم مسلمان تو ہوگا کیونکہ وہ طاغوت کو سمجھتا ہے اور اس کا حصہ نہیں بنتا۔
یعنی ہم ایمان کو ایک پیمانے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جس میں کمزور مسلمان سے لے کر مومن تک کے ۱ سے ۱۰ تک درجات یا رینکنگ ہو یعنی کمزور ایمان کا درجہ ۱ اگر ایک ہوگا تو ایک مومن کا درجہ ۱۰ ہوگا۔ اب اس پیمانے پر ایک کمزور مسلمان ، جو طاغوت کے خلاف معاشرے میں کُھل کر جہاد نہیں کر پاتا، اس کا درجہ ۱ یا ۲ یا شاید ۳ ہوگا لیکن بہرحال ایسا شخص مسلم تصور ہوگا کہ دل میں اس سب کو برا جانتا ہوگا اور ان سے دور رہتا ہوگا۔ اور دوسری طرف وہ مسلمان جو عملی طور پر ان طاغوتوں اور معاشرے میں انکے پھیلائے ہوئے تفرقے اور فساد کے خلاف نبرد آزما ہونگے اور اسے حوالے سے پیش آنے والی تمام سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہونگے تو یقینناً انکا درجہ ۱۰ یا اسکے قریب کہیں ہوگا۔
ایمان کے برعکس شرک کا کوئی ایسا پیمانہ یا درجات نہیں ہوتے کیونکہ شرک کو تو بذات خود قران میں ظلم عظیم اور ناقابل معافی گناہ کہا گیا ہے لہذا ایک شخص یا تو شرک پر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ یہاں پر کمزور شرک یا بڑے یا چھوٹے شرک پر ہونا جیسی کوئی بات نہیں کہ اس گناہ کی معافی تو ہے ہی نہیں چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ لہذا ایک مسلم کو ہر وقت اور ہر لمحہ شرک یعنی اللہ کی ذات سے شراکت کے اس گناہ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور ایسی ہر رسم، تہوار یا عبادت سے دور رہنا چاہیئے جس میں شرک و بدعت کا شائبہ بھی ہو اورجسکو پھیلانے والے دین کے لبادے میں چھپے طاغوت ہوں جو اسلامی تعلیمات کے نام پر شرک و بدعت پھیلاتے ہیں۔ لہذا اگر لوگ جنازے میں میت کو قبرستان لے جاتے وقت اونچی آواز میں کلمۂ شہادت پڑھیں تو ایک مسلمان کا کام نا صرف ایسے عمل سے دور رہنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس سے منع کرنا ہے کہ ایسی کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، یہ بدعت تو برصغیر پاک و ہند میں ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے ایجاد ہوئی جب ہندو اپنی ارتھی شمشان گھاٹ لے جاتے ہوئے رام نام ستیا ہے کی پکاریں لگاتے سو اس وقت مسلمانوں میں موجود نام نہادعلماء نے سوچا کہ شاید اس حوالے سے دین میں کوئی کمی رہ گئی ہے لہذا انہوں نے کلمۂ شہادت کی یہ پُکار ایجاد کرلی تاکہ اعلان کیا جاسکے کہ یہ مسلمان کا جنازہ ہے حالانکہ اسکی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ اسطرح بات واپس اسی مقام پر آجاتی ہے کہ اسلام کو رہتی دنیا تک کے لئے نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ عیلہ وسلم کے ذریعے مکمل کردیا گیا اور اب کسی کو اس حوالے سے دین میں کوئی نئی ایجاد کرنے کی اجازت نہیں اور ایسی بدعات کو عام کرنے والے تمام طاغوتوں اور انکی رسومات کو رد کرنا لازمی ہے تاکہ معاشرے میں ایمان اور شرک و بدعت کا فرق باقی رہ سکے کہ ایمان اور طاغوت کبھی ایک ساتھ نہیں چلے سکتے اور طاغوت کا حصہ بننا ہمیں دائرہ اسلام سے باہر لے جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ مسلم دنیا میں بہت سے ایسے نامور علماء دین یا سکالرز موجود ہیں جنہیں دینی معاملات یا علوم میں بڑی مہارت حاصل ہے اوریہ لوگ تقریباً تمام فروہی اور روزمرہ زندگی کے حوالے سے مسائل کے حل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں طلاق کے معاملے میں یا بچوں کی پرورش یا پھر وراثت اور دیگر تمام مسائل پر انکے دینی اور قانونی مشوروں کا ایک ڈھیر مل جائے گا لیکن ایمان، شرک اور طاغوت جیسے موضوع جو درحقیقت ایک اسلامی زندگی کی بنیاد اور اساس ہیں ان پر بات یا ان پر تفصیلاً گفتگو نہیں کی جاتی۔ ہمارے خیال میں اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں
۔ ہم انفرادی حیثیت میں یا پھر بحیثیت ایک معاشرہ ایک مسلمان کی تعریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بالفاظ دیگر ہم دنیا کا غلط سے غلط کام کر کے بھی مسلمان ہی رہتے ہیں اور کبھی اپنے مسلمان ہونے کو چیلنج نہیں کرتے ہیں اور ناہی اپنے عقائد و اعمال کا تجزیہ کرتے ہیں نتیجتاً ہم زیادہ تر ایسے مسائل یا انکے حل ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں جو صرف ایک مسلمان کے ایمان کی تکمیل کے بعد اہمیت رکھتے ہیں۔
ہم اپنے اندر کسی فرقے یا انکی کسی رسم کا انکار کرنے کی ہمت اکٹھی نہیں کر پاتے چاہے وہ اسلام یا قران و حدیث کے فیصلے کے کتنا ہی خلاف کیوں نا ہو۔ اسی طرح ہمارے بہت سے علماء و مشائخ بھی اپنے اندر یہ حوصلہ پیدا نہیں کر پاتے کہ وہ کسی فرقے یا اسکے پھیلائے کسی خلاف ِقران و حدیث عقیدے و رسم کے خلاف کوئی بات کر سکیں کیونکہ ایسا کام کرنے سے انہیں اپنی شہرت میں کمی کا ڈر یا اپنے پیروکاروں کی تعداد کم ہو جانے کا خوف ہوتا ہے۔
یہاں پر ہم پاکستان کے ایک بہت ہی نامور دینی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد جن کی حال ہی میں وفات ہو گئی کی مثال دینا چاہیں گے کیونکہ وہ ملک کے نسبتاً پڑھے لکھے اور مڈل کلاس طبقے میں قران اور اسکی تفسیر پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اپنے ایک آڈیو لیکچر میں شرک کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص صبح اذان سننے کے باوجود بستر سے نکل کر صلوٰة ادا نہیں کرتا یعنی سستی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسکی یہ حرکت نفس کوالٰہ بنا لینے کی وجہ سے شرک کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔ یقینناً قران نفس کو الہٰ بنا لینے کو شرک سے ہی تعبیر کرتا ہے لیکن یہ مثال اس حوالے سے کافی عجیب ہے کہ اگر ہر ایسی حرکت شرک ہی بن جائے گی تو پھر ہم گناہ کسے کہیں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت اور نفسیات کو سمجھتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کیسے انسان کا نفس اسے بہلاتا پھسلاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ انسان صلٰوة کی ادائیگی کی بجائے نرم بستر کو ترجیح دے اور یہ جنگ تو دنیا کے ہر معاملے میں ہر انسان کے ساتھ لگی ہی ہوتی ہے لیکن ایسی کسی صورتحال میں فطری کمزوری کے تحت نفس کے جال میں آجانا شرک نہیں بلکہ گناہ ہوگا، ہاں اگر انسان مستقل طور پر ہی صلٰوة ترک کر دے گا یا اگر وہ یہ کہے گا کے صلٰوة یا نماز تو اسلام میں ہے ہی نہیں یا اسے پڑہنا ضروری نہیں تو پھر یقینناً اس سے مراد نفس کو الہٰ بنا لینا ہو گا لیکن اکا دکا واقعات میں اسے شرک نہیں کہا جا سکتا ورنہ اسکا تو مطلب یہ ہوگا کہ جب غزوۂ احد کے دوران جو صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف پہاڑی کی نگرانی چھوڑ کر دیگر لوگوں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے انہوں نے خدانخواستہ شرک کر دیا۔ اور اسی طرح شرک کے حوالے سے اپنے اسی آڈیو لیکچر میں ڈاکٹر اسرار احمد شاہ ولی اللہ کی کہی ہوئی ایک بات سناتے ہیں کہ اولیاء کی ارواح انکی وفات کے بعد اللہ کے حکم سے فرشتوں کے طبقہ اسفل یا فرشتوں کے نچلے درجے کےطبقے میں شامل کردی جاتی ہیں اور پھر اللہ ان سے مختلف کام لیتا ہے۔ اور پھر یہ واقعہ سنانے کے بعد ڈاکٹر اسرار صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے شرک نہیں۔ یعنی ایک طرف شرک پر اتنا غیر معمولی حد تک اصرار اور شدت اور دوسری جانب چونکہ اسی حوالے سے ایک غلط تعلیم انکے پسندیدہ اور ایک نامی گرامی عالم کی طرف سے آئی تو ڈاکٹر صاحب اپنے دبنگ انداز کے باوجود اس طاغوت کا رد نہیں کر پائے کہ نہیں بھئی علماء اور اولیاء کی ارواح کے حوالے سے شاہ ولی اللہ کی کہی گئی یہ بات قران و حدیث کے قطعی منافی ہے اور یہ عقیدہ در اصل امت میں موجود پکار کے شرک کو ترویج دیتا ہے کہ پھر لوگ اللہ کو مدد کے لئے پکارنے کی بجائے فوت شدہ انبیاء اور اولیاء کو مدد کے لئے پکارنا شروع کر دیتے ہیں جو شرک ہے۔
اسی طرح ہمارے دیگر علماء کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے معاملہ ہے کوئی انہیں مجسم نور مانتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ وہ نور اور بشر دونوں ہی تھے اور کسی کا ماننا یہ ہے کہ وہ اللہ کی پہلی تخلیق تھے اور اللہ نے ساری کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے ہی پیدا فرمایا وغیرہ۔ لیکن افسوس کہ یہاں بھی قران و حدیث کے صریحاًٍٍ منافی ان عقائد اور انہیں پھیلانے والے بڑے بڑے ناموں اور القابات والے نام نہاد علماء کا رد نہیں کیا جاتا جو کہ حقیقت میں لا الہ ٰ الااللہ کی پکار اور اسکا صحیح معنوں میں حق ادا کرنا ہے۔
اسی طرح یہ فرقے اور انکے نام نہاد علماء اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قبر میں زندہ مانتے ہیں اور کہا جاتا ہے کے انکی روح انکے جسمِ مبارک کے ساتھ قیامت تک کے لئے واپس ڈال دی گئی ہے تاکہ وہ اپنی امت کی پکاریں سن سکیں اور انکے حق میں اللہ کی طرف وسیلہ بنیں۔ اور بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ پھر ایک قدم آگے بڑھ کر یہی عقیدہ دیگر اولیاء اور صوفیاء کے ساتھ بھی منسوب کر دیا جاتا ہے اور نتیجتاً کہیں یا نبی اور یاعلی کی پکاریں لگی ہیں تو کہیں یا غوث اور حق باہو بے شک باہو کے نعرے لگے ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر اسی کی بنائی ہوئی مخلوق جو وفات پا چکی ہے کو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ سب ہندومت سے زبردستی اسلام میں شامل کر دیا گیا اور برصغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے ناموں والے صوفیاء نے اس ’ کار خیر‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے پرستش و پوجا کے لئے ایک مادی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے نظر آئے اور جسے وہ چٔھو سکے ۔ مالک کائنات نے انسانی فطرت کی اس تسکین کے لئے اسے اپنا گھر یعنی کعبہ عطا کیا۔ لیکن ان فرقوں اور انکے موجدصوفیاء نے اسی فطرت کو ایک غلط سمت دے دی یعنی انبیاء اور اولیاء کو زبردستی انکی قبروں میں زندہ کرکے امت کو قبر پرستی پر لگا دیا اور قبروں کے صورت میں لوگوں کو کئی نقلی کعبے مہیا کردیے۔
اسی طرح سنی اور شیعہ مسئلے کو بھی ایک فروہی یا سیاسی اختلاف کا نام دے دیا جاتا ہے حالانکہ یہ ہر اعتبار سے عقیدے کا مسئلہ ہے جس پر اگر اختلاف رائے ہو تو کوئی ایک ہی ٹھیک ہو سکتا ہے دونوں نہیں کہ اسلام میں ایک ہی معاملے میں دو مخالف عقیدے اور دونوں ہی صحیح نہیں ہو سکتے۔ لہذا اس حوالے سے بھی بات کر کے مسئلے کو اجاگر یا اس پر بات چیت نہیں کی جاتی کہ معاشرے کا خوف مانع آتا ہے اور لوگ بھی ناراض ہوتے ہیں۔
لہذا ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ہمارے یہ علماء اپنی اپنی گد ی یا اپنے پیروکاروں کی تعداد بچانے کے لئے ان اہم اور جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنے والے ایشوز پر یا تو بات ہی نہیں کرتے اور یا پھر انکے حوالے سے دی جانے والی غلط تعلیمات کو چھپاتے ہیں تاکہ نہ معاشرے کا سخت رددعمل دیکھنا پڑے اور نا اپنے مریدین کی تعداد میں کمی ہو۔ اعمال اور دیگر فقہی مسائل پر تو بڑی بڑی کتابیں لکھ دی جاتی ہیں لیکن اصل مسائل اور انکے حوالے سے طاغوت کے انکار کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ اور تو اور ہمارے ہاں دین اسلام کے پیروکاروں کی اکثریت تو طاغوت کے لفظ اور اسکے معنی سے ہی نا آشنا ہے۔ اور اسکی وجہ لوگوں کی ذاتی طور پر دین سے دوری تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ ان نام نہاد علماء کی کمزوری بھی اسکی بڑی وجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں اکثر ان دو مختلف خیالات تصورات یعنی طاغوت کے انکار اور تکفیر کو ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ جہاں تک اسلامی عقائد کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تکفیرکو کبھی بھی کوئی غیر معمولی اہمیت نہیں دی گئی اس کے برعکس عقائد کے حوالے سےطاغوت کا انکار بنیادی اہمیت کا حامل ہے جیسا کے پہلے بیان ہوا۔
طاغوت کے انکار میں دین کے حوالے سے تمام غلط عقائد، رسومات اور تعلیمات اور انہیں ایجاد کرنے والوں کا رد شامل ہے جو قران و سنت کی کسوٹی پر پورے نہ اترتے ہوں۔ سو غلط عقائد و رسومات اور انہیں ایجاد کرنے والے یا انکی سرپرستی اور معاشرے میں انہیں عام کرنے والے دونوں ہی طاغوت کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ اسلئے کہ ایک پیداوار کو اسکے بنانے والے کاریگر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا طاغوت کے انکار کی مد میں بات غلط عقائد اور رسومات سے شروع ہو کر ان شخصیات پر آکر ختم ہوگی جنہوں نے انہیں ایجاد کیا اور دین اسلام کے نام پر انکی ترویج کی۔ ہمارے ہاں غلط عقائد یا طاغوت کے انکار کے حوالے سے ایک تاویل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ ہو سکتا ہے انہیں ایجاد کرنے والوں نے اپنی وفات سے پہلے اللہ سے معافی طلب کی ہو۔ لہذا صرف غلط عقائد کا انکار ہی کیا جائے نا کہ ان بڑی بڑی اور نامور ہستیوں کا جنہوں نے ان عقائد کو پھیلایا۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس حوالے سے اسلام میں ہمیشہظاہر پر فیصلہ کیا جاتا ہے لہذا جب کسی شخصیت کے بارے میں غلط تعلیمات کے حوالے سے باقاعدہ ثبوت مل جائیں تو پھر ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ انہیں ایجاد کرنے والے یا پھیلانے والے کا بھی اس انداز میں رد کیا جائے گا۔ یہ اسلئے بھی کہ ہر انسان اپنی عقل و فہم اور اپنے علم اور تجربے کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور جب ہمیں کسی کے شرک و کفر کے حوالے سے واضح اور باقاعدہ ثبوت مل جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ اس شخصیت کے حوالے سے اللہ سے معافی یا اپنے مؤقف سے توحید پر واپسی کا ثبوت نا ملے تو پھر ہمیں ایسے شخص کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا کہ وہ غلط عقائد پر تھا چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہویا پھر نامورعالم دین۔ اللہ سبحان و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
پیغمبراور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔ سورۃ التوبہ ۱۱۳
یقینناً ہماری اکثریت کے لئے ایسا کرنا بہت مشکل ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بالکل وہی فارمولا ہے جس کے تحت ہم مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسکی موت کفر پر ہوئی ۔ ہم اسے کافر اسی لئے مانتے ہیں کہ ہمیں اسکے حوالے سے اسکی زندگی میں کفر یا قران و سنت کے واضح انکار کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن اسی حوالے سے اللہ سے معافی مانگنے یا اپنی روش تبدیل کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لہذا ہم اس حوالے سے ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں۔ ورنہ اگر ہر عالم یا راہنما کے بارے میں اندازے لگا کر انہیں رعایت ہی دینی ہے تو پھر مرزا کو کیوں نہیں؟ سو وجہ ایک بار پھر ظاہر پر فیصلہ کرنے کی ہی ہے اور یہی حکم ہمیں صحیح بخاری کی ذیل کی حدیث بھی ملتا ہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے، میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔ صحیح بخاری ، کتاب الحیل
کسی بھی انسان کے حوالے سے حق و باطل کا فیصلہ اسی طریقئہ کار کے مطابق ہوگا جو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کی نظرمیں کسی انسان کی اہمیت صرف اسکے تقوے کے حوالے سے ہی ہوتی ہےیا پھر اسکے نیک اعمال سے لیکن ان دونوں کا وزن اسی صورت ہوگا جب عقیدہ قران و سنت کے مطابق درست ہوگا۔ سو اگر ایک بہترین انسان بھی اگر اسلام کے علاوہ کسی اور عقیدے یا مذہب پر جان دیگا تو آخرت میں اسکا کوئی حصہ نہیں ہوگا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اسے ایک آسان موت ملے یا پھر قبر یعنی برزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے لیکن اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیونکہ آخرت کی کامیابی اور کامرانی تو صرف صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے ہی ہے وہ صحیح عقیدہ جسکا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور جس کا پرچار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ ایسی ہی ایک مثال مدر ٹریسا کی ہے جس نے ایک بہترین انسان کے طور پر زندگی گزاری اور اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیا لیکن موت تو اسکی بھی عیسیٰ علیہ سلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہوئے یعنی شرک کی حالت میں ہوئی لہذا آخرت میں اسکے لئے کوئی حصہ اور صلہ نہیں ہوگا۔
ثابت یہ ہوا کہ جب ہمیں کسی شخص کے بار ےمیں ثبوت کے ساتھ یا ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر یقین ہو کہ اسکی وفات شرک و کفر کی حالت میں ہوئی تو پھر ہم اسے مشرک یا کافر ہی سمجھیں گے کیونکہ موت کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ہاں اب اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اسے اسکی زندگی میں بطور تضحیک کافر یا مشرک کہ کر بلائیں یا ان الفاظ کا استعمال اس پر ایک لیبل کی صورت میں لگا دیں۔ اس بات کو سمجھ لینا ہی دراصل اللہ کی کتاب اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق طاغوت کا انکار کرنا ہے ۔ یہی طاغوت کا رد ابو بکر ؓ اور ابو جہل کے درمیان فرق سکھاتا ہے۔
اب آئیے ان لوگوں کی طرف جو ابھی زندہ و حیات ہیں لیکن حالت شرک میں ہیں۔ یہاں سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ لوگوں کے درمیاں تمیز انکے عقائد اور اعمال کے مطابق ہی کی جاتی ہے، جیسے ایک چوری کرنے والا جس پر الزام ثابت ہو جائے اسے چور کہا جائے گا اور اسی طرح رشوت لینے والے کو راشی ہی کہا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جب قران اور صحیح حدیث کی روشنی میں کسی کے بارے میں یہ واضح ہو جائے کہ وہ شرکیہ عقائد و اعمال پر ہے تو پھر ایسے شخص کو مشرک ہی کہا جائے گا یہاں تک کہ وہ اپنے عقائد درست کرلے۔ ہم ایک ہندو یا وعیسائی کو بھی بالکل اسی اندازیا فارمولا کے مطابق مشرک کہتے ہیں ۔ اور ویسے بھی کافر یا مشرک کی یہ اصطلاحات خدانخواستہ گالیاں یا فحش الفاظ نہیں بلکہ یہ قرا ن میں موجود اصطلاحات ہیں جو ایک خاص قسم کا یعنی خلاف قران و حدیث عقیدہ رکھنے والے یا عمل کرنے والے لوگوں پر لاگو ہو جاتی ہیں۔ اور اسی طرح جب یہ شخص اپنے مشرکانہ عقائد و اعمال سے تائب ہو جائے اور توحید پر صحیح معنوں میں عمل کرنے لگے تو پھر اسے مسلم مان لیا جائےگا۔ جب بھی اسے دین کی دعوت دی جائے گی تو حکمت و مصلحت اور پیار محبت کے ساتھ اور اگر پھر بھی ایسا شخص توحیدِ خالص کی طرف نہیں آئے گا یا غصے کا اظہار کرے گا تو صبر سے کام لیا جائے گا اور اگر وہ پھر بھی اپنی ضد پر مصر رہے تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا کہ دین میں کوئی جبر نہیں لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ
سو مشرک سے مراد صرف ایک ہندو ہی نہیں جو اللہ کے علاوہ بہت سے خداؤں کو مانتا ہے بلکہ ایک خدا کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے مذاہب کے لوگ بھی شرک پر ہو سکتے ہیں جیسا کہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے اپنے مذہب کی اصل تعلیم یعنی توحید پرستی کو چھوڑ کر اپنے انبیاء اور علماء کو خدا ، خدا کا بیٹا یا خدا جیسی ہستی بنا لیا اور انہیں مدد کے لئے پکارنے اور ان سے فریادیں کرنے لگے اور یوں یہ دونوں مذاہب توحید کے پیغام سے شروع ہو کر اسکی ایک بگڑی ہوئی شکل بن گئے ورنہ موسٰی علیہ سلام اور عیسٰی علیہ سلام دونوں بشر تھے اورتوحید یعنی ایک اللہ کی بندگی اور عبادت کا پیغام لائے تھے۔ اور بالکل اسی طرح آج کا ایک کلمہ گو بھی شرک پر ہو سکتا ہے یعنی اگر وہ زبان سے تو کلمہ پڑھے لیکن پھر بالکل ایک عیسائی یا یہودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی ذات یا اسکے نور کا حصہ بنا ڈالے یا اللہ کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ یا اولیاء جو وفات پا چکے ہیں ان کو مدد کے لئے پکارے ،ا نکی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لے یا انکی بات یا فتوؤں کے آگےقران و حدیث کےاحکام کا انکار کردے۔ ایسے شخص کو بہرحال مشرک ہی سمجھا جائے گا اور اس معاملے میں صرف اسکے کلمہ پڑھ لینے یا سوم و صلوٰة کی پابندی کو اسکے مسلمان ہونے کے لئے کافی نہیں سمجھا جائےگا ، یعنی کسی کے مسلمان ہونے کے لئے اسکا مسلمانیت کا دعوٰی کافی نہیں بلکہ اسکا فیصلہ اسکے عقیدہ اور عمل کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھ کر کیا جائے گا۔ چاہے ایسا شخص ایک عام آدمی ہو یا پھر کوئی نامور عالم دین، آخر کو ابو جہل بھی تو دین ابراھیمی پر ہونے کا دعویدار اور اپنے وقت کا مشہور ومعروف عالم تھا ۔ دیگر مکہ والوں کی مثال بھی ایسی ہی ہے جو شرک پر مر گئے کہ وہ بھی آج کی امت کی اکثریت کی طرح اپنے آپکو دین ابراھیمی کے بہترین پیروکار کہتے تھے لیکن ہم آج بھی انہیں مشرکینِ مکہ کے نام سے جانتے ہیں۔
ہاں یہ کہ یہاں پر معاملہ کسی کو لیبل کرنے کا نہیں کہ ایسے ہر انسان کے پاس اپنی زندگی میں ہر وقت توبہ کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہمیں ایسے شخص کو سمجھانے کا موقع ملے تو حتٰی الامکان اس میں نرمی اور محبت سے کام لینا چاہیئے اور ہمارے برتاؤ یا سمجھانے کے انداز سے ایسا نہیں لگنا چاہیئے جیسے ہم اس کا مزاق اڑا رہے ہیں ورنہ وہ ہماری بات کبھی غور سے نہیں سنے گا اور نا ہی اس پر کبھی سوچے گا۔ یاد رکھیں کہ ایک اچھے اور نرم انداز سے کی جانے والی بات میں بہت اثر ہوتا ہے لیکن اگر انداز ٹھیک نا ہو تو صحیح بات بھی اپنا اثر کھو دیتی ہے لہذا سورة العصر کا پیغام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے جو ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ لوگوں کو حق بات کی تلقین کی جائے اور اس راستے میں آنے والی تمام مشکلوں یعنی سخت ردِعمل یا غصے کو صبر اور خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے۔ ویسے بھی دین کے حوالے سے سمجھائی جانے والی بات پر لوگوں کا بھڑک اٹھنا ایک فطری عمل ہے کیونکہ ہماری اکثریت اسلام کو خود سمجھ کر اس پر چلنے کی بجائے اپنے باپ دادا کے دین پر چلتی ہے اور جب انہیں اس حوالے سے سمجھایا جائے تو آگ بگولا ہونا ایک فطری چیزہے اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ہمارا اپنا ردِعمل بات کو بنا یا بگاڑ سکتا ہے ۔ لہذا جب اللہ کے دین کا پرچارکرنے کا بیڑا اٹھا ہی لیا تو پھر اسے درست انداز میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سنت کے مطابق ہی ہونا چاہیئے یعنی اس راہ میں آنے والی صعوبتوں پر سرِ تسلیم خم کیا جائے اور محبت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ، اور ویسے بھی ایک مسلمان کا رویہ بہرحال ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ ہمارے ہاں فرقے عموماً اسی لئے آپس میں ہر وقت جھگڑتے ہیں کہ وہ اپنے آپکو تو صحیح گردانتے ہی ہیں پر اسکے علاوہ ہر ایک کو کیڑا مکوڑا خیال کرتے ہیں ،فرقہ پرستی کا یہی نقصان ہے۔ جبکہ ایک مسلمان کی روش ان سب سے ہمیشہ مختلف ہونی چاہیئے کہ اسلام ایک فلاح کا راستہ و دین ہے اور فلاح کی جانب ہمیشہ محبت اور خلوص سے ہی بلایا جاتا ہے۔
السّلام علیکم و رحمتہ اللہِ و برکاتہٗ
Post a Comment