ایصال ثواب سے مراد کوئی بھی ایسی عبادت یا نیک کام ہے جو رضاکارانہ طور پر کسی انسان کےلئے اسکی وفات کے بعد کیا جائے اور پھر اس عبادت کا ثواب اس مرنے والے کو ارسال کردیا جائے جیسا کہ ہمارے ہاں عموما ً دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان کے مرنے کے فوراً بعد اسکے عزیز و اقارب مل جل کر محلے کی مسجد کے مولوی صاحب کی سرکردگی میں ڈھیروں قران پڑھ کر یا مسجد کے بچوں سے پڑھوا کر اس کا ثواب مرنے والے کے اعمال نامے میں دعا کی صورت میں بھیج دیتے ہیں کہ اس پڑھے ہوئے قران یا پکائے گئے پکوان و دیگر اشیاء خورد و نوش (جو اس موقع پر مولوی صاحب اور انکی ٹولی کو صدقہ کیے جاتے ہیں) ان سب کا ثواب مرنے والے کو ملے۔
آئیے ابتدا ہی میں عقیدہ ٔ ایصال ثواب کے حوالے سے قران کی چند آیات پر غور کرتے ہیں۔
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
وہ ایک جماعت تھی جو گزرچکی ان کے لیے ان کے اعمال میں اور تمہارے لیے اور تمہارے اعمال ہیں اور تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔ سورة البقرہ ، آیات ۱۳٤ اور ۱٤۱
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
جو کوئی نیک کام کرتاہے تو اپنے لیے اور برائی کرتا ہے تو اپنے سر پر اور آپ کا رب تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا- سورة فصلت، آیت ٤٦
أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَ۔ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ۔ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَ
وہ یہ کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، اور یہ کہ اس کی کوشش جلد دیکھی جائے گی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔ سورة النجم آیات ۳۸ تا ٤۱
سو قرانی احکام اس معاملے میں بالکل واضح اور صاف ہیں کہ ہر انسان کو اسکے اپنے عقیدے اور زندگی میں کئے ہوئے اپنے ہی اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جائے گا یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے ہی بوئے کی فصل کاٹے گا۔ دین میں شامل کئے جانے والے کسی بھی عمل کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ آیا وہ بدعت ہے یا نہیں قران کے علاوہ صحیح حدیث سے مدد لینا بہت ضروری ہے کیونکہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ قران کے احکام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کرام ؓ نے کس طرح عمل کیا یعنی انکی سنت یا انکا فیصلہ کیا تھا اور پھر کیسے اسے معاشرتی یا حکومتی سطح پر لاگو کیا گیا۔ اگرہم ایصال ثواب کے حوالے سے حدیث کے خزانے پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بھی ایسی صحیح حدیث نہیں ملتی جسے اس عقیدے یا اسکے نتیجے میں کی جانے والی مختلف رسومات کے حق میں بطور ثبوت مانا جائے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا جب ان میں سے کسی کی وفات پر قران خوانی کا انتظام کیا گیا ہو یا محلے والوں، رشتہ داروں اور دوست و احباب اور مسجد کے مولوی کو گھر بلا کر چنے کے دانوں اور گٹھلیوں پر قرانی آیات پڑھی گئی ہوں یا قل، سوئم ، دسواں یا چالیسویں و برسی کی محفلیں منعقد کی گئی ہوں۔ ویسے بھی اس حوالے سے بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ قران ایک ہدایت کی کتاب ہے اور اسکا مقصد یہ ہے کے زندہ لوگ اسے پڑھ کر اسکے پیغام کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں، اسکے احکامات کو مانیں اور اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیں لیکن جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے یعنی جنکا دنیاوی معاملہ مکمل ہو گیا ان کو اس کتاب سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی یہ کتاب اب انکے اعمال ناموں پر کسی طرح سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ انہیں اس کتاب سے اسی صورت میں فائدہ ہوتا اگر وہ اسے اپنی زندگی میں پڑھ کر اسکے پیغام پر عمل کرتے اور اپنی زندگی اسکے احکام کے مطابق گزارتے۔ لہذا اللہ کی کتاب زندہ لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے نہ کے مُردے بخشوانے کے لئے۔
اگر دیکھا جائے تو ایصال ثواب کے اس موضوع کا اسلامی عقائد سے براہ راست تعلق ہے جیسا کہ اسلام میں موت کا تصور اور اسکے حتمی ہونے کا ادراک ہونا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان یا اسلام کے نام لیوا اس بات کا علم اور مکمل یقین ہونا چاہیئے کہ موت کے بعد انسانی روح برزخ کی آڑ کے پیچھے یا علم برزخ میں چلی جاتی ہے اور ہم یعنی زندہ لوگ اسکی سزا یا جزا کے معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اور چونکہ اسلام کی تکمیل آج سے چودہ سو سال پہلے ہو چکی تو اب ہم اپنی طرف سے ایصال ثواب یا کوئی بھی ایسی اور رسومات دین میں ایجاد نہیں کر سکتے جن کا ثبوت ہمیں قران یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے نہیں ملتا۔ قران کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی اس حوالے سے یہی سبق موجود ہے کہ موت کے بعد انسان کو وہی ملتا ہے جس کی اس تگ و دو اس نے خود اپنی زندگی میں کی ہو۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دوتو واپس آجاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتا ہے، اس کے ساتھ اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے اس کے گھر والے اور مال تو واپس آ جاتا ہے اور اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔ صحیح بخاری، کتاب الرقاق
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ صحیح مسلم، کتاب الوصایا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے ہدایت کی طرف لوگوں کو بلایا تو اس بلانے والے کو ویسا ہی اجر ملے گا جیساکہ اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے اجر میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔اور جس نے گمراہی کی طرف لوگوں کو بلایا تو اس پر اس گمراہی کی پیروی کرنے والے پر جتنا گناہ کا بوجھ ہوگا، اور ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ صحیح مسلم، کتاب العلم
لہذ ا ان صحیح احایث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مرنے کے بعد انسان کو ( اگر اسکی وفات ایک صحیح العقیدہ مسلم کے طور پر ہوئی)، مندرجہ ذیل باتوں کا فائدہ یا صلہ ملتا ہے۔
۔۱۔ اس کے اپنے اعمال جو اس نے خود اپنی زندگی میں
کئے
۔۲۔ صدقۂ جاریہ
۔۳۔ اگر اس نے حق بات لوگوں تک پہنچائی جسکے نتیجے
میں انہیں فائدہ ہوا یا انہیں اپنی زندگی اور آخرت
سنوارنے کا موقع میسر آیا۔
۔٤۔ اور اگر مرنے والے کی اولاد اسکی مغفرت یا بخشش
کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا یا درخواست کرے (بشرطیکہ مرنے والے کی موت شرک کی
حالت میں نہ ہوئی ہو)۔
اس حوالے سے اپنی زندگی میں کئے جانے والے نیک
اعمال کا معاملہ تو بالکل سیدھا سادہ ہے لیکن بہتر ہے اگر ہم صدقۂ
جاریہ اور دیگر چند باتوں کو نسبتاً تفصیل سے سمجھ لیں کیونکہ ہمارے ہاں فرقے
(سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبند، اہلحدیث، سلفی وغیرہ) اور انکے لالچی مولوی اسکی غلط
تشریح کرکے لوگوں کا مال کھاتے ہیں۔
صدقۂ جاریہ
صدقۂ جاریہ سے مراد ایسا نیک عمل ہے جس کا
فائدہ مسلسل ہو یعنی لوگوں کو اس صدقہ کرنے والے کی زندگی میں اور اسکی
وفات کے بعد بھی اس نیک عمل سے فائدہ پہنچتا رہے جیسے کہ درخت لگانا ،
ہسپتال تعمیر کروا دینا یا دیگر فلاحی کام اور یا پھر علم جسے انسان خود
سیکھ کر دوسروں کو سکھائے۔ چونکہ اس صدقہ یا نیکی سےلوگوں یا معاشرے کے
فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس کام کا ثواب بھی جاری رہتا
ہے یہاں تک کے وفات کے بعد بھی انسان کو ملتا رہتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کی
گئی احادیث سے ثابت ہے۔ قران و حدیث سے صرف دو طرح کا صدقۂ جاریہ ثابت ہے۔
۔۱۔ ایک تو وہ نیک کام جو انسان نے خود اپنی زندگی میں کیا جیسے کوئی
مسجد تعمیر کروا دی، کنواں کھدوا دیا یا پھر پانی کی سبیل لگوا دی وغیرہ۔
۔۲۔ اسکے علاوہ ایسا کام بھی صدقۂ جاریہ کی مد میں آئے گا جسے کرنے کا
انسان نے اللہ سے وعدہ تو کیا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور پھر اسکے لواحقین یعنی
اولاد نے اسکی اس منّت یا اللہ سے کئے وعدے کو پورا کردیا جو ان کے لئے
لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ منّت پورا کرنے
کے اس عمل کو ہم بلا جواز قران خوانی یا دیگر رضاکارانہ نیک کاموں سے
جوڑ کر زبردستی ان کا ثواب مردے کو نہیں بھیج سکتے کہ یہ صرف اللہ ہی کا حق
ہے کہ وہ ہر انسان کو اسکے اعمال کے مطابق صلہ دے اور اسلئے اللہ کو(نعوذ باللہ)
رشوت نہیں دی جا سکتی۔ اس حوالے سے صرف ایک رعایت اسلام میں ہے جو کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہے یعنی انکا اللہ سے اپنی امت کے کچھ لوگوں کے لئے
معافی طلب کرنے کا حق لیکن یہاں بھی شرط یہ ہے کہ یہ اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کو صرف قیامت کے دن ملے گی اور سفارش کی یہ اجازت شرک پر جان دینے والوں کے لئے
نہیں بلکہ عام گناہگاروں کے لئے اللہ سے معافی طلب کرنے کا اختیار دیا جائےگا۔اسی
حوالے سے احادیث کی روشنی میں یہ بھی ثابت ہے کہ بدعتیوں کو قیامت کے
دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہوگی ۔
اوپر بیان کی گئی بخاری اور مسلم کی
احادیث کی روشنی میں دو اور باتیں سمجھ لینا بہت ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ جن
کاموں کی اجازت دی گئی ہے ان میں قران خوانی یا موجودہ دور میں ایصال ثواب کے
دیگر طریقوں کا کوئی ذکر نہیں اور دوسرا یہ کہ جہاں پر اولاد کا اپنے
والدین کے لئے دعا مغفرت کرنے کا ذکر ہے تو اس حوالے سے بھی یہ بات غور طلب ہے کہ
اگر والدین شرک کے حالت میں وفات پا گئے تو پھر انکے لئے دعا مغرت کی بھی اجازت
نہیں۔ اس بات کا حکم ہمیں سورۃ التوبہ کی درج ذیل آیات میں ملتا ہے۔
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اوران میں سے جو مرجائے کسی پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو بے شک انہوں نے الله اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مر گئے۔ سورۃ التوبہ، آیت ۸٤
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
پیغمبراور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔ سورۃ التوبہ، آیت ۱۱۳
اور مسئلہ تو یہ ہے کہ جہاں مرنے والے نے کوئی منت مانی ہی نہ ہو تو اسکے لئے رضاکارانہ ایصال ثواب کیسا جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے؟ یعنی آپ اپنے طور سے ہی نیکیاں کر کر کے انکا ثواب مرنے والے کے کھاتے میں ڈالتے رہیں تاکہ اسکے گناہ کم ہو جائیں اور ثواب زیادہ، بھلا یہ کیونکر ممکن ہے؟ یعنی اگر ایک امیر لیکن انتہا کے گناہگار اور ظالم انسان کی وفات کے بعد اگر اسکے لواحقین پیسہ پانی کی طرح بہا دیں اور ہزاروں قران پڑھ کر انکا ثواب اسے ارسال کر دیں اور صدقے کی دیگ پر دیگ چڑھائیں تو کیا اس سب سے اسکی مغفرت ہو جائے گی یعنی اسکے لئے بھیجے گئے ثواب کے کاموں یا نیکیوں کی تعداد اسکے عمر بھر کے گناہوں اور ظلم و زیادتیوں سے بڑھ جائیں گے اور دوسری طرف ایک غریب گناہگار آدمی صرف اسلئے جہنم میں جھونک دیا جائے گا کیونکہ اسکے پیچھے ایصال ثواب کی صورت میں ڈھیروں نیکیاں نہیں بھیجی گئیں؟ کیا اللہ کے نظام کے ساتھ اس طرح سے کھلواڑ کیا جا سکتا ہے؟
سو ایصال ثواب کی یہ بدعت اور اس سے منسوب تمام رسومات دراصل امت میں موجود ان گنت فرقوں (سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبند، اہلحدیث، سلفی وغیرہ) کے مولویوں نے ایجاد کیں تاکہ مرنے والے کے لواحقین کے ایصال ثواب کے ذریعے ان کی اپنی روٹیا ں اور دعوتیں چلتی رہیں۔ ظاہر ہے کہ مرنے والے کے لواحقین محلے کی مسجد کے مولوی صاحب اورانکے مدرسے کے بچوں سے ہی قران خوانی کی خدمات لیں گے اور اسکے عوض انہیں پیسے اور دیگر لوازمات دیئے جائیں گے، اگر ایصال ثواب کے لئے پلاؤ یا مرغ کی دیگ پکے گی تو اسے مولوی صاحب اور انکی ٹولی ہی کھائیں گے، اسی طرح اگر مُردے کے ایصال ثواب کے لئے کیا جانے والے تمام تر صدقہ بشمول مالی ہدیہ و وظیفہ وغیرہ کے پہلے حقدار بھی مولوی صاحب ہی ہونگے۔ اور تو اور دین کے ان ٹھیکیداروں نے تو قران پڑھنے کے بھی شارٹ کٹ طریقے ایجاد کر دیئے گئے ہیں جیسے ’بسم اللہ کا قران‘ اور اب تو حال یہ ہے کہ ان پیشہ ور مولویوں نے اپنی اپنی مسجدوں میں پڑھے پڑھائے قران رکھے ہوتے ہیں اور مرنے والے کے لواحقین مسجد میں فون کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں پچاس یا سو پڑھے ہوئے قران ہدیہ کر دیجئے اور مولوی صاحب وہیں بیٹھے بیٹھے اس قران خوانی کا ثواب مرنے والے کے اعمال نامے میں ہدیہ کر دیتے ہیں، یعنی نئے دور میں ایصال ثواب کے نئے طریقے! سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ۔ پاک ہے وہ رب اس سب سے جو کچھ یہ اس سے منسوب کرتے ہیں۔ المومنون۹۱
سو اس طرح سے بدعات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی بدعات کا سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے کہ یہ ایک دفعہ شروع ہو جائیں تو رکتی نہیں بلکہ طاغوت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ آج ہم سب جانتے بوجھتے بھی کسی عزیز رشتہ دار کے مرنے پر قران خوانی اور گٹھلیاں پڑھنے کی محفلیں سجاتے ہیں اورسوئم ، چالیسویں اور برسیاں منعقد کرتے ہیں اور یا پھر معاشرے کے دباؤ میں آکر ان کا حصہ بنتے ہیں۔ تاویلیں یہی پیش کی جاتی ہیں کہ ’’قران ہی تو پڑھ رہے ہیں کچھ غلط کام تو نہیں کر رہے‘‘ لیکن حقیقت میں سب جانتے بوجھتے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اصل خوف معاشرے اور برادری کا ہوتا ہے کہ یہ سب نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ لہذا اپنے اپنے فرقےاور یا پھر خاندان اور معاشرے کے دباؤ میں آکر ایسی تمام بداعمالیوں میں شریک ہوا جاتا ہے اور اللہ اوراسکے نبی کی کھلی نافرمانی کرتے ہوئے طاغوت میں حصہ داری کی جاتی ہے۔ طاغوت اور اسکے انکار سے متعلق مزید معلومات کے لئے ہمارا تفصیلی مضمون طاغوت ۔ جُھوٹے خدا ملاحضہ کیجئے۔
منت، نذر یا اللہ سے کیا ہوا وعدہ
مناسب ہے کہ یہاں منّت اور ایصال ثواب کے فرق کو بھی سمجھ لیا جائے۔ صحیح احادیث سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اللہ سے منّت مانے، جیسے اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں ایک ماہ کے روزے رکھوں گا وغیرہ، لیکن پھر زندگی اسے مہلت نہ دے اور وہ اس منّت کو پورا کئے بغیر مر جائے تو ایسی منّت کو اللہ کی طرف قرض سمجھا جائے گا اور مرنے والے کی اولاد کے لئے ایسی کسی بھی منت کو پورا کرنا لازمی ہوگا۔ اسی لئے اسلام میں منت کی اجازت تو ہے لیکن اسے کوئی مقبول عمل قرار نہیں دیا گیا۔ اور ہمارے ہاں ہوتا کیا ہے کہ اس منت کے تصور کو زبردستی ایصال ثواب بنا دیا جاتا ہے یعنی چاہے مرنے والے کی کوئی منت نہ بھی ہو اسکے نام سے رضاکارانہ طور پر نیک اعمال یعنی قران خوانی، روزے، صدقہ و خیرات اور قربانی وغیرہ شروع کر دیا جاتا ہے یا والد یا والدہ کے نام سے منّت یا صدقۂ جاریہ کے طور پر کوئی ہسپتال بنوا کر یا ویلفیرٔ ٹرسٹ وغیرہ کھول کر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نیک کام کا ثواب انکے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا۔ عموماً اس مفروضے کی حمایت میں صحیح بخاری کی ذیل کی حدیث پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دیکھیں ان صحابی کو بھی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کے لئے صدقہ کرنے کی اجازت دی تھی تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ ؓ کی ماں عمرہ بنت مسعود کی وفات ہو ئی تو وہ اس وقت وہاںموجود نہیں تھے ۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا ۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔ صحیح بخاری حدیث، کتاب الوصایا
لیکن جب ہم اس حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے اسی موضوع یعنی سعد بن عبادہؓ کی والدہ کی وفات کے موقع پر روایت کی جانے والی دیگر احادیث پر نظر ڈالیں تو ہمیں صحیح بخاری ہی کی کچھ اور احادیث مل جاتی ہے جن سے مطلب صاف ہو جاتا ہے اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سعد بن عبادہ ؓکی والدہ نے بھی اللہ سے منت یا نذر مانی تھی لیکن اسے پورا نہ کر پائیں لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقہ کی اجازت دی۔ یہ بات مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہے۔
ابن عباس ؓ نے خبر دی ، انہیں سعد بن عبادہ ؓ نے بتایاکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمہ باقی تھی اور ان کی موت منت پوری کرنے سے پہلے ہو گئی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے مانی گئی منّت پوری کر دیں ۔ چنانچہ بعد میں یہی طریقہ مسنون قرار پایا ۔ صحیح بخاری ، کتاب الایمان والنذور
سو یہاں پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایصال ثواب میں کئے جانے والے نیک کام ہمیشہ رضاکارانہ طور پرکیے جاتے ہیں اور اپنے کئے کام کا ثواب مردے کو بخش دیا جاتا ہے جو کہ منت یا نذر کے مقابلے میں بالکل مختلف معاملہ ہے کیونکہ منت تو مُردے کے سر سے اس قرض کو اتارنے کے لئے پوری کی جاتی ہے جسکا مرنے والے نے خود اپنی زندگی میں اللہ سے وعدہ کیا لہذا منت یا نذر کے حوالے سے ہر حدیث میں یہی ملتا ہے کہ اولاد کو علم تھا کہ مرنے والے والدین نے کوئی منت مانی لیکن پوری نہیں کر پائے لہذا حکم دیا گیا کہ پورا کرو۔
سوئم ، چالیسواں اور برسی وغیرہ
یہ تمام رسومات بھی برصغیر پاک و ہند میں بہت عام ہیں جہاں مرنے والے کے لواحقین وفات کے بعد، پھر تدفین کے تیسرے، دسویں ، چالیسویں دن اور پھر ایک سال بعد اسکے گھر جمع ہوتے ہیں جہاں تمام حاضرین میں قران کے سپارے تقسیم کئے جاتے ہیں اور انہیں پڑھ کر اس پڑھائی کا تمام ثواب مرنے والے کو ایصال کر دیا جاتا ہے۔ قران کے علاوہ چنوں اور گٹھلیوں پر بھی ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں قران کی مختلف آیات یا مختلف اذکار پڑھے جاتے ہیں۔ پھر مرنے والے کے لواحقین اپنی حیثیت کے مطابق گھر آنے والوں کی آؤ بھگت کا سامان کرتے ہیں کہیں دیگیں چڑھائی جاتی ہیں تو کہیں کچھ اور اہتمام ہوتا ہے۔ اکثر اوقات اس کام کے لئے قرضہ وغیرہ بھی لیا جاتا ہے کہ برادری کے سامنے ناک نہ کٹے جائے اور پھر لمبا چوڑا انتظام اور بے جا اسراف دیکھنے میں آتا ہے۔ ظاہر سے بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی سے ایسے کسی عمل یا محفل کا کوئی ذکر نہیں ملتا لہذا ایسی تمام رسومات بدعت کے زمرے میں آتی ہیں۔ بلکہ قران تو ہمیں بتاتا ہے کہ مرنے والے کو تو صرف اپنے کیےکا بدلہ ملتا ہے کسی اور کے اعمال کا نہیں جیسا کے اس مضمون کے شروع میں پیش کی گئی آیات سے ثابت ہے۔
قران کے احکامات، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے اجماع کے مطابق ہونا تو صرف یہ چاہیئے کہ اگر مرنے والے نے ایمان کی حالت میں جان دی تو اسکے لئے دعا مغفرت کی جائے اور بس، یعنی اللہ کی بارگاہ میں اسکے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا مانگی جائے اور ایسی کسی بھی دعا سے پہلے یا بعد کسی قسم کی عبادت کر کے اسکا ثواب زبردستی مرنے والے کو بھیجنا ضروری نہیں اور چونکہ ایسا کچھ قران و سنت نبوی سے ثابت نہیں تو اسلام کا حصہ بھی نہیں کہ اگر یہ سب اسلام ہوتا تو یقیناً اللہ اسے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا دیتا۔ لہذا ایسے تمام کام بدعات ہیں یعنی دین میں کی گئی نئی نئی اختراعات اور ان کا حصہ بننا سخت ترین گناہ کے ساتھ ساتھ اللہ کے اپنے دین کی تکمیل کے حوالے سے کئے گئے وعدے کا مزاق اڑانا بھی ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور اس کی سزا جہنم ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دنیا دار کی بجائے صرف دین دار بننے کی توفیق عطا فرمائےتاکہ ہم حقیقی معنوں میں مسلم بن قران و حدیث کی روشنی میں اللہ کے دین کو سمجھ کر اس کا حق ادا کر سکیں۔
Post a Comment