کالم لسٹ "Articles"

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ تو مُردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ سورة النحل آیات ۲۰ ۔ ۲۱
اس موضوع کو اگر آج کی امّت میں موجود تمام تر شرک و کفر کی جڑ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ لوگ ایک اللہ یعنی ایک مالک و معبود کو چھوڑ کر مردہ انسانوں کی قبروں، مزاروں اور آستانوں پر اسی لئے بھاگے پھرتے ہیں کہ انہیں انکے پسندیدہ فرقے نے یہی سمجھایا ہوتا ہے کہ قبروں میں مدفون یہ بڑے بڑے ناموں والے لوگ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں، تمہاری پکاروں کو سنتے ہیں اور پھر انہیں آگے اللہ تک پہنچاتے ہیں اور تمہارے لئے اللہ سےسفارش کرتے ہیں اور وسیلہ بنتے ہیں۔ امت میں موجود ان گنت فرقوں کے عقائد میں اس حوالے سے تھوڑا بہت فرق تو یقیننا ہے لیکن اصل فارمولا جو ان سب میں یکساں ہے وہ مرنے کے بعدروح کا زمینی قبر میں مدفون جسم میں قیامت سے پہلے لوٹا دیے جانے کا عقیدہ ہے۔ اسی باطل عقیدے سے تمام شرک و بدعت کی ابتدا ہوتی ہے کیونکہ جب لوگوں کو کہا جائے گا کہ مردہ جسم میں روح واپس لوٹا دی جاتی ہے اور وہ زندہ ہو جاتا ہے اور سنتا ہے تو ظاہر ہے وہ مرنے والے کو مدد کے لئے پکاریں گے یا پھر اس سے دیگر قسم کی توقعات بھی وابستہ کر لیں گے۔ لیکن جب ہم اس عقیدہ کو قران و صحیح حدیث کی روشنی میں پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ اور اس سے متعلقہ تمام عقائد باطل اور خود ساختہ ہیں جنہیں یہ فرقے قران و حدیث سے ثابت کرنے کی بجائے انکے حق میں اپنے نامی گرامی علماء کے فتوے لا کر ثابت کرتے ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے طاغوت کے مضمون میں دیکھا کہ قران و حدیث کے خلاف گھڑے جانے والے عقائد و رسومات اور انہیں ایجاد کرنے واے لوگ سب طاغوت کے زمرے میں آتے ہیں جن کا رد کرنا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔
اسلام میں زندگی اور موت کا تصور بڑا ہی سیدھا ہے اور وہ یہ کہ جب روح اللہ کے حکم سے انسانی جسم کے ساتھ جڑ جائے تو اسے زندگی کہا جاتا ہے اور جب روح جسم سے علیحدہ ہو جائے تو اسے موت کہتے ہیں۔ اس حوالے سے قران میں صرف دو  زندگیوں کا ذکر ملتا ہے یعنی پہلی زندگی وہ جب روح کو انسانی جسم سے جوڑا جاتا ہے اوراسکی پیدائش ہوتی ہے اور دوسری زندگی قیامت کے بعد حشر کے دن عمل میں آئے گی جب تمام انسانی جسم دوبارہ تخلیق کئے جائیں گے اور انکی ارواح واپس ان اجسام میں ڈال دی جائیں گی اور تمام انسان میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لئے جمع ہو جائیں گے۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

تم الله کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔ سورة البقرہ، آیت ۲۸

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو بار موت دی اورتو نے ہمیں دوبارہ زندہ کیا پس ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا پس کیا نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے۔ سورة غافر، آیت ۱۱
سو قران ہمیں بتاتا ہے کہ عالم دنیا میں زندگی کا معاملہ کیسا ہے اور اسی طرح موت کے بعد تمام ارواح کو ، چاہے وہ اچھے انسانوں کی ہوں یا بروں کی، انہیں ایک آڑ کے پیچھے لے جایا جاتا ہے جسے عالمِ برزخ کہتے ہیں اور اس عالم سے روح کی اپنے جسم میں واپسی صرف اور صرف قیامت یا روز حشر ہی ممکن ہے جیسا کہ اللہ تعالی قران میں فرماتا ہے۔

وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

اور ان کے آگے اس دن تک برزخ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔ سورۃ المومنون ۱۰۰
لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ مردہ انسان کی روح کا قیامت سے پہلے اپنے مدفون جسم میں لوٹ آنے کا یہ عقیدہ قران کے خلاف ہے۔ یہ اسلئے کہ تمام ارواح قیامت تک عالمِ برزخ میں رہیں گی چاہے یہ نیک انسانوں یعنی شہداء ، انبیا ء اور مومنین کی ارواح ہوں اور چاہے بدکاروں کی ارواح ہوں۔ سب کو انکے دنیاوی اعمال کا اچھا یا برا بدلہ عالم ِبرزخ میں ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور قیامت کے بعد اس ثواب یا عذاب میں مزید زیادتی کردی جائے گی۔ یہی ثواب یا عذاب راحتِ قبر یا عذابِِ قبر کہلاتا ہے۔ لہذا یہ بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ یہاں قبر سے مراد وہ زمینی گڑھا نہیں جہاں مردے کو دفن کیا جاتا ہے بلکہ یہاں اس سے مراد موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کا وہ دور ہے جسے برزخی زندگی یا عالمِ برزخ کا دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔
برزخ کی یہ زندگی یا دورانیہ کسی بھی طرح سے اس دنیاوی زندگی جیسا نہیں ہے یعنی دنیاوی زندگی پر اس کا قیاس ممکن نہیں۔ یہ آخرت کے حوالے سے دیگرچند معاملات کی طرح ہے جنہیں ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ہمیں اس حوالے سے قران و حدیث میں بہت محدود معلومات دی گئی ہیں۔ لہذا ہمیں احادیث میں بیان کی گئی معلومات پرہی انحصار کرنا پڑتا ہے اوراس معاملے میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہم نہ تو اپنی سوچ لڑائیں اور نہ ہی احادیث کو اوپر بیان کئے گئے قرانی احکام سے علیحدہ کرکے انکی تشریح کریں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔ لہذا اس موضوع پر موجود تمام صحیح احادیث کو قرانی احکام اور پھر اس موضوع پر موجود دیگر صحیح احادیث کی روشنی میں ہی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ اسلئے کہ قران میں موت کے بعد کی زندگی یا اس کے معاملات کے حوالے سے بہت زیادہ تفصیلات نہیں دی گئیں جیسا کہ اللہ تعالٰی قرآن میں شہداء کے بارے میں یہی ارشاد فرماتا ہے۔

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں انکی زندگی کا شعور نہیں۔ سورة البقرہ، آیت ۱۵٤
ثابت ہوا کہ ہمارے لئے اایک ایسے موضوع کا مکمل ادراک ہوناممکن ہی نہیں جب قران نے خود بتا دیا کہ ’’تمہیں اس کا شعور نہیں‘‘ سو ایک بار پھر ہمیں اتنی بات پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جتنی ہمیں بتا دی گئی۔ اسی طرح قران میں شہداء کی زندگی کے حوالے سے ذیل کی آیت بھی ملتی ہے۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ

اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔ سورة آل عمران ۱٦۹
اس طرح سے ہمیں بتا دیا گیا کہ شہداء ’’عندربھم‘‘ یعنی اپنے رب کے پاس ہیں اور وہاں رزق پا رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے مناسب ہے کہ ہم صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں کہ جب صحابۂ کرام نے شہداء کے حوالے سے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے کیا ارشاد فرمایا۔
مسروق نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود سے قران کی اس آیت ’’اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہےہیں‘‘ (سورۃ آل عمران ۱٦۹ ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ شہدا کی روحیں سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں عرش الٰہی سے لٹکی ھوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی طرف ان کے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہدا نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں، اللہ تعالٰی نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہدا نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے ان کا رب ان سے برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا مالک ہماری تمّنا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب مالک نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا۔ صحیح مسلم جلد ۲
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح کو خاص قسم کے اڑنے والے جسم دیئے گئے ہیں اور وہ اپنی زمینی قبروں میں نہیں بلکہ جنتوں میں خوش و خرم ہیں ۔ اللہ تعالٰی ان سے کلام فرماتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر تمہیں کسی اور چیز کی تمنا ہو تو بتاؤ لیکن جب وہ اس خواہش کو ظاہر کرتے ہیں کے انکی روح کو واپس ان کے دنیاوی جسم میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت حاصل کریں تو مالکِ کائنات اس خواہش کے جواب میں اپنی سنت نہیں بدلتا بلکہ انہیں جنت میں عیش و عشرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔
اوپر پیش کی گئی دونوں آیات یعنی البقرہ ۱۵٤ اور آل عمران ۱٦۹ اکثر اوقات دنیاوی قبروں میں زندگی کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو اللہ تو فرما رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو اور پھر اسی بنیاد پر تمام انبیاء اور اولیاء کو زبردستی انکی قبروں میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان آیات کے اپنے الفاظ اور پھر صحیح مسلم کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے پتہ چلتا ہے کہ شہداء کو مردہ کہنا درست نہیں لیکن وہ قبروں میں نہیں بلکہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں اور انہیں واپس اپنے مدفون جسموں میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ امام بخاری بھی اپنی صحیح میں شہداء کے حوالے سے ذیل کی حدیث لائے ہیں۔
انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔ صحیح بخاری ، کتاب المغازی
اسی طرح بخاری ہی میں شہداء کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراھیم جن کی نومولدگی میں ہی وفات ہو گئی کے حوالے سے بھی یہ حدیث ملتی ہے۔
براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔ صحیح بخاری، کتاب الجنائز
اب آئیے شہداء کے علاوہ دیگر انسانوں بشمول انبیاء کرام کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں، اور اس حوالے سے بھی صحیح بخاری میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ملتی ہے جس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ تمام اچھے اور برے انسان بشمول انبیاء اور مومنین عالمِ برزخ میں زندہ ہیں جہاں وہ اکٹھے راحت و عذاب کے سلسلے سے گزارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس حدیث سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی مدینہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اعلی گھر میں زندہ ہیں اور اس حدیث کے مطابق انہیں اپنا یہ مقام دکھایا گیا جہاں اپنی وفات کے بعد انہوں نے رہنا تھا۔ یہ حدیث کافی لمبی ہے لیکن انتہائی اہمیت کی حامل ہے سو ہم اسے یہاں مکمل کاپی کر رہے ہیں۔
سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ‘ عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ‘ یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔صحیح بخاری ، کتاب الجنائز
چونکہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے ہمارے لئے اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں وہ مقام دکھا دیا گیا جہاں انہیں اپنی دفات کے بعد رہنا تھا۔
۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنی مدینہ کی قبر میں نہیں بلکہ مقامِ محمود پر زندہ ہیں اور یہ زندگی کسی اعتبار سےدنیاوی زندگی نہیں بلکہ برزخی زندگی ہے اور ہمارے تقریباًٍٍ تمام فرقوں کا انہیں انکی قبر میں زندہ اور دنیا میں حاضر و ناظر ماننا یا یہ کہنا کہ وہ لوگوں کے خوابوں میں آتے ہیں اور اشارے دیتے ہیں قطعی غلط اور خلافِ قران و حدیث عقائد ہیں۔
۔ تمام انسانی ارواح وفات کے بعداکٹھی یا ایک ہی جگہ پر یعنی عالمِ برزخ میں عذاب یا راحت کی منزلوں سے گزرتی ہیں۔
۔ ارواح کو ملنے والے برزخی اجسام خاص نوعیت کے ہیں جنہیں اگر نقصان پہنچے تو یہ دوبارہ بن جاتے ہیں۔
۔ وہ تمام زنا کار مرد اور عورتیں جو دنیا میں مختلف مقامات پر مرے اور دفنائے یا جلائے گئے وغیرہ ان سب کو برہنہ حالت میں ا یک ساتھ جمع کر کے ایک بڑے تنور میں جھونک دیا جاتا ہے اور آگ کے عذاب سے گزارا جاتا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔
۔ نیک لوگ یا مومنین ، انبیاء اور شہداء بھی برزخ میں اکٹھے ہیں جہاں انہیں خاص جسم ملتے ہیں جیسے شہداء کو اڑنے والا جسم ملتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالے سے ہمیں ایک اور صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو انکی وفات سے ذرا پہلے کی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں حاضر و نا ظر رہنے کی بجائے اللہ کی رفاقت کی دعا کی یعنی جنت میں دکھائے گئے مقام پر رہنے کو ترجیح دی ۔
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘ یعنی ’’ اے اللہ رفیق اعلیٰ ‘‘ ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘۔ صحیح بخاری، کتاب الدعوات
لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے یہ دنیاوی گڑھا نہیں جہاں صرف اسلئے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے کی نیت سے دفن کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی میں مٹی ہو جائے اور تعفن نہ پھیلے۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ
انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔ سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲
پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔
حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔ سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔ سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦
اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر {بریلوی، دیوبند، شیعہ} یا پھر وقتاً فوقتاً {اہلحدیث و سلفی} انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔
قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان
فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کریں؟
اسی طرح قران اس معاملے میں بھی بالکل صاف حکم دیتا ہے کہ تمام انسان اپنی دنیاوی وفات کے بعد صرف اور صرف قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَ‌ٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦
اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے:
ابوہریرہ ؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا ، دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی ، سوا ئے ر یڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی ۔ صحیح بخاری، کتاب التفسیر
ایک بار پھر قران و حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ تمام انسانی جسم دنیاوی گڑھے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی روزِ محشر ان جسموں کو عجب الذّنب یا دمچی کی ہڈی سے دوبارہ بنائے گا ، اس سے پہلے نہ ان گڑھوں میں زندگی ہے اور نہ ہی ان جسموں میں جان۔ اس حوالے سے دیگر فرقوں کا جو حال ہے سو ہے لیکن اہلحدیث و سلفی تو حد سے ہی گزر جاتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ روح کو گاہے بگاہے قبر میں مدفون جسم سے جوڑا جاتا ہے تاکہ روح اور جسم دونوں کو عذاب ور احت سے گزارا جائے لیکن اگریہ پوچھا جائے کہ جن انسانوں کو جانور یا مچھلیاں کھا لیں انکا کیا؟ تو یہ فرماتے ہیں، ’’وہ لوگ جن کی موت ڈوبنے یا جلنے سے ہو اور یا پھر جنہیں جنگلی جانور کھا جائیں انکی ا رواح ان جانوروں یا پھر سمندر کی مچھلیں کے پیٹوں میں لوٹائی جائیں گی‘‘ ۔ ان کا یہ فتویٰ انگریزی زبان میں اسلام کیو اے نامی ویب سائٹ لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ حا ل ہے ان کا جو اپنے آپکو غیر مقلدین ، حدیث کے اہل اور سلف صالحین کے ماننے والے کہتے ہیں۔ یعنی اپنے بعد میں آنے والے علماء کی غلط تعلیمات کےدفاع میں اتنا آگے نکل گئے کہ قران و حدیث کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اور تواور اپنی فرقہ پرستی میں یہ تک نہ سوچا کہ اگر یوں روح کو بار بار جسم سے جوڑا جائے گا تو اسکے نتیجے میں کتنی زندگیاں اور موتیں عمل میں آئیں گی اور قران کی آیات کا کیا ہوگا جو ہر انسان کے لئے صرف دو زندگیوں کا ذکر کرتی ہیں؟
سو جب اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِ قبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں یہ سب لانے کے ذمہ دار صوفی ہیں جن کے بارے میں ہمیں بڑے دھڑلے سے مطالعہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ صوفیاء نے سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد اس خطے میں اپنے ڈیرے جما لئے اور دینِ اسلام کا پرچار کیا۔ بات ڈیرے جمانے تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیں۔ بلکہ ان دین کے دشمنوں نے ظلم یہ کیا کہ ہندومت، اسلام اور بدھ مت کو ملا کر تصوف اور صوفیت کے نام سے ایک دینِ خدائی بنایا اور اپنی اپنی گدیاں، شجرے اور سلسلے چلانے کے لئے خلق ِاللہ کو کفر و شرک پر لگا دیا۔ اسی کفر و شرک پر مبنی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک قبر ، مزار یا آستانہ ہے جسے لوگ پوجتے نظر آتے ہیں۔ ہر ایسے قصبے جس میں کسی نام نہاد ولی کی قبر ہو اسکے نام کے ساتھ شریف لگا دیا جاتا ہے جیسے مزار شریف، اچ شریف، پاک پتن شریف وغیرہ اور خلقت اپنی اپنی فریادیں لے کر ان قبروں پر ٹوٹی پڑتی ہے، طواف و سجدے ہوتے ہیں، چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں، غیر اللہ کی نذر و نیاز ہوتی ہے، بھنگ، قوالیاں اور دھمالیں ہوتی ہیں، منت کا تیل، تعویذ، کڑے اور دھاگے خریدے اور بیچے جاتے ہیں غرض جس جس کام سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہر وہ کام بدترین انداز میں ان قبروں پر انجام پاتا ہے اور قران و حدیث کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں قبر پرستی یا لوگوں کے قبروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ملکی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آتی ہے تو اسے سب سے پہلے علی ہجویری {المعروف داتا صاحب} کے مزار پر حاضری و شکرانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، ملکی سربراہ ہر سال مزارِ قائدا ور مزارِ اقبال پر حاضری دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں، کہیں توپوں کی سلامی ہوتی ہے تو کہیں گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزارِ قائد کے سامنے جلسہ سےکرتا ہے، نام نہاد شہیدقومی و سیاسی لیڈروں کی قبریں آگرہ کے تاج محل سے زیادہ شان و شوکت کی حامل نظر آتی ہیں ، چاہے انکے ووٹر بھوکے مرتے ہوں انکی قبروں پر دن رات گلاب و عطر کی بارش ہوتی ہے ، ملک بھر میں بجلی بھلے ہی نہ ہو ان مزاروں اور آستانوں کے برقی قمقمے کبھی نہیں بجھتے، بلکہ ہمارے ہاں تو بہت سے مشہور سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خود گدی نشین اور پیر ہیں۔ حقیقت میں ان مزاریوں ، لغاریوں، پیروں، ٹوانوں، مخدوموں، دولتانوں وغیرہ کو انگریز نے اپنے دور حکومت میں نوازا تاکہ یہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنے مذہبی اثر و رسوخ اور اپنی گدیوں کے ذریعے دبا کر رکھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت سے باز رکھیں اورپھر انگریز کے جانے کے بعد یہی لوگ، انکے خاندان اور آل اولاد ہمارے سیاسی لیڈر اور حکران بن گئے اور عوام چونکہ پہلے ہی قبر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا تھی تو اس نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ احتجاج کے لئے دین کی فہم، دنیاوی تعلیم اور آزاد سوچ چاہیئے جو فرقوں اور انسانوں کی اندھی تقلید میں ممکن ہی نہیں۔ کسی بھی فرقے کا حصہ بننے کے لئے پہلی لازمی شق یہی ہے کہ دین کے تمام معاملات میں اپنی عقل کو استعمال کرنا بند کر دیا جائے کہ دین کے معاملات کو سمجھنا اور سمجھانا صرف چند گنے چنے اعلٰی نصب اہلِ علم کا کام ہے جنکی کسی بھی بات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ایصال ثواب سے مراد کوئی بھی ایسی عبادت یا  نیک کام ہے جو  رضاکارانہ طور پر کسی انسان کےلئے اسکی  وفات کے بعد کیا جائے اور پھر اس عبادت کا ثواب اس مرنے والے کو ارسال کردیا جائے جیسا کہ ہمارے ہاں عموما ً دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان کے مرنے  کے فوراً  بعد اسکے عزیز و اقارب مل جل کر محلے کی مسجد کے مولوی صاحب کی سرکردگی میں ڈھیروں قران پڑھ کر یا مسجد کے بچوں سے پڑھوا کر اس کا ثواب مرنے والے کے اعمال نامے میں دعا کی صورت  میں بھیج دیتے ہیں کہ اس پڑھے ہوئے قران یا  پکائے گئے  پکوان  و دیگر اشیاء خورد و نوش  (جو اس موقع پر مولوی صاحب اور انکی ٹولی  کو صدقہ کیے جاتے ہیں)  ان سب کا ثواب مرنے والے کو ملے۔
آئیے ابتدا ہی میں عقیدہ ٔ ایصال ثواب کے حوالے سے قران کی چند آیات پر غور کرتے ہیں۔

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

وہ ایک جماعت تھی جو گزرچکی ان کے لیے ان کے اعمال میں اور تمہارے لیے اور تمہارے اعمال ہیں اور تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔ سورة  البقرہ ، آیات ۱۳٤ اور ۱٤۱

مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ

جو کوئی نیک کام کرتاہے تو اپنے لیے اور برائی کرتا ہے تو اپنے سر پر اور آپ کا رب تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا- سورة  فصلت، آیت ٤٦

أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَ۔ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ۔ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَ

وہ یہ کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، اور یہ کہ اس کی کوشش جلد دیکھی جائے گی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔ سورة  النجم آیات ۳۸  تا  ٤۱

سو قرانی احکام  اس معاملے میں بالکل واضح اور صاف ہیں کہ ہر انسان کو اسکے اپنے عقیدے اور  زندگی میں کئے ہوئے اپنے  ہی اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جائے گا یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے ہی بوئے کی فصل کاٹے گا۔  دین میں شامل کئے جانے والے کسی بھی عمل کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ آیا وہ بدعت ہے یا نہیں قران کے علاوہ صحیح حدیث سے مدد لینا  بہت ضروری ہے کیونکہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ قران کے  احکام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کرام ؓ  نے کس طرح عمل کیا یعنی انکی سنت یا انکا فیصلہ کیا تھا  اور  پھر کیسے اسے معاشرتی یا حکومتی سطح پر لاگو  کیا گیا۔ اگرہم ایصال ثواب کے حوالے سے  حدیث کے خزانے پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بھی ایسی صحیح حدیث نہیں ملتی جسے اس عقیدے  یا اسکے نتیجے میں کی جانے والی مختلف رسومات کے حق میں بطور ثبوت  مانا جائے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا جب ان میں سے کسی کی وفات پر قران خوانی کا  انتظام کیا گیا ہو یا محلے والوں، رشتہ داروں اور  دوست و احباب  اور مسجد کے مولوی کو  گھر بلا کر چنے کے دانوں اور گٹھلیوں پر قرانی آیات  پڑھی گئی ہوں یا قل، سوئم ، دسواں یا چالیسویں و برسی کی محفلیں منعقد کی گئی ہوں۔ ویسے بھی اس حوالے سے بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ قران ایک ہدایت کی کتاب ہے اور اسکا مقصد یہ ہے کے زندہ لوگ اسے پڑھ کر اسکے پیغام کو اپنی زندگیوں میں  شامل کریں، اسکے احکامات کو مانیں اور اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیں لیکن جو  لوگ اس دنیا سے چلے گئے یعنی جنکا دنیاوی معاملہ مکمل ہو گیا ان کو اس کتاب سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی یہ کتاب اب انکے اعمال ناموں پر کسی طرح سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ انہیں اس کتاب سے اسی صورت میں فائدہ ہوتا اگر وہ اسے اپنی زندگی میں پڑھ کر اسکے پیغام پر عمل کرتے اور اپنی زندگی اسکے احکام کے مطابق گزارتے۔ لہذا اللہ کی کتاب زندہ لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے نہ کے مُردے بخشوانے کے لئے۔
اگر دیکھا جائے تو ایصال ثواب کے اس موضوع  کا  اسلامی عقائد سے براہ راست تعلق ہے جیسا کہ اسلام میں موت  کا تصور اور اسکے حتمی ہونے کا ادراک ہونا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان یا اسلام کے نام لیوا  اس بات کا علم اور مکمل یقین ہونا چاہیئے کہ موت کے بعد انسانی روح  برزخ کی آڑ کے پیچھے یا علم برزخ میں چلی جاتی ہے اور ہم یعنی زندہ لوگ اسکی سزا یا جزا کے معاملات میں کسی بھی  طرح کی مداخلت نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اور چونکہ اسلام کی تکمیل آج سے چودہ سو سال پہلے ہو چکی تو اب ہم اپنی طرف سے ایصال ثواب یا کوئی بھی ایسی اور رسومات دین میں ایجاد نہیں کر سکتے جن کا ثبوت ہمیں قران یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے نہیں ملتا۔   قران کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی  اس حوالے سے یہی سبق موجود ہے کہ موت کے بعد انسان کو وہی ملتا ہے جس کی اس تگ و دو اس نے خود اپنی زندگی میں کی ہو۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دوتو واپس آجاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتا ہے، اس کے ساتھ اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے اس کے گھر والے اور مال تو واپس آ جاتا ہے اور اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔ صحیح بخاری، کتاب الرقاق
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ صحیح مسلم، کتاب الوصایا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے ہدایت کی طرف لوگوں کو بلایا تو اس بلانے والے کو ویسا ہی اجر ملے گا جیساکہ اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے اجر میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔اور جس نے گمراہی کی طرف  لوگوں کو بلایا  تو اس پر اس گمراہی کی پیروی کرنے والے پر جتنا گناہ کا بوجھ ہوگا، اور ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ صحیح مسلم، کتاب العلم


لہذ ا ان صحیح احایث سے یہ بات  واضح ہو گئی کہ مرنے کے بعد انسان کو ( اگر اسکی وفات ایک صحیح العقیدہ مسلم کے طور پر ہوئی)، مندرجہ ذیل باتوں کا فائدہ یا صلہ ملتا ہے۔
۔۱۔ اس کے اپنے اعمال جو اس نے خود اپنی زندگی میں کئے
۔۲۔ صدقۂ جاریہ
۔۳۔ اگر اس نے حق بات لوگوں تک پہنچائی جسکے نتیجے میں انہیں فائدہ  ہوا یا  انہیں اپنی  زندگی  اور آخرت سنوارنے کا موقع میسر آیا۔
۔٤۔ اور اگر مرنے والے کی اولاد اسکی مغفرت یا بخشش کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا  یا درخواست کرے (بشرطیکہ مرنے والے کی موت شرک کی حالت میں نہ ہوئی ہو)۔
اس حوالے سے اپنی زندگی میں کئے جانے والے نیک اعمال کا معاملہ تو بالکل سیدھا سادہ  ہے  لیکن بہتر ہے اگر ہم صدقۂ جاریہ اور دیگر چند باتوں کو نسبتاً تفصیل سے سمجھ لیں کیونکہ ہمارے ہاں فرقے (سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبند، اہلحدیث، سلفی وغیرہ) اور انکے لالچی مولوی اسکی غلط تشریح کرکے لوگوں کا مال کھاتے ہیں۔
صدقۂ جاریہ
صدقۂ جاریہ سے مراد ایسا نیک عمل ہے جس کا فائدہ  مسلسل ہو یعنی لوگوں کو اس صدقہ کرنے والے کی  زندگی میں اور اسکی وفات کے بعد بھی اس نیک عمل سے فائدہ  پہنچتا  رہے جیسے کہ درخت لگانا ، ہسپتال تعمیر کروا دینا یا دیگر فلاحی کام  اور یا پھر علم جسے انسان خود سیکھ کر دوسروں کو سکھائے۔ چونکہ اس صدقہ یا نیکی سےلوگوں یا معاشرے کے  فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو  اس کام کا ثواب  بھی جاری رہتا ہے یہاں تک کے وفات کے بعد بھی انسان کو ملتا  رہتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کی گئی احادیث سے ثابت ہے۔  قران و حدیث سے صرف دو طرح کا صدقۂ جاریہ ثابت ہے۔
۔۱۔ ایک تو وہ نیک کام جو انسان نے خود اپنی زندگی میں کیا جیسے کوئی مسجد تعمیر کروا دی، کنواں کھدوا دیا یا پھر پانی کی سبیل لگوا دی وغیرہ۔
۔۲۔ اسکے علاوہ ایسا کام بھی صدقۂ جاریہ کی مد میں آئے گا جسے کرنے کا انسان نے اللہ سے وعدہ تو کیا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور پھر اسکے لواحقین یعنی اولاد نے اسکی اس منّت یا  اللہ سے کئے وعدے کو پورا کردیا جو ان کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
یہاں یہ بات بہت  اہم ہے کہ منّت پورا کرنے کے اس عمل کو ہم بلا جواز قران خوانی یا دیگر رضاکارانہ نیک کاموں سے  جوڑ  کر زبردستی ان کا ثواب مردے کو نہیں بھیج سکتے کہ یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ وہ ہر انسان کو اسکے اعمال کے مطابق صلہ دے اور اسلئے اللہ کو(نعوذ باللہ) رشوت نہیں دی جا سکتی۔  اس حوالے سے صرف ایک رعایت اسلام میں ہے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہے یعنی انکا اللہ سے اپنی امت کے کچھ لوگوں کے لئے معافی طلب کرنے کا حق لیکن یہاں بھی شرط یہ ہے کہ یہ اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف قیامت کے دن ملے گی اور سفارش کی یہ اجازت شرک پر جان دینے والوں کے لئے نہیں بلکہ عام گناہگاروں کے لئے اللہ سے معافی طلب کرنے کا اختیار دیا جائےگا۔اسی حوالے سے  احادیث کی روشنی میں  یہ بھی ثابت ہے کہ بدعتیوں کو قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہوگی ۔
 اوپر بیان کی گئی بخاری اور مسلم کی احادیث کی روشنی میں دو اور باتیں سمجھ لینا بہت  ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ جن کاموں کی اجازت دی گئی ہے ان میں قران خوانی یا موجودہ دور میں ایصال ثواب کے دیگر  طریقوں کا کوئی ذکر نہیں اور دوسرا یہ کہ  جہاں پر اولاد کا اپنے والدین کے لئے دعا مغفرت کرنے کا ذکر ہے تو اس حوالے سے بھی یہ بات غور طلب ہے کہ اگر والدین شرک کے حالت میں وفات پا گئے تو پھر انکے لئے دعا مغرت کی بھی اجازت نہیں۔  اس بات کا حکم ہمیں سورۃ التوبہ کی درج ذیل آیات میں ملتا ہے۔

وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ

اوران میں سے جو مرجائے کسی پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو بے شک انہوں نے الله اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مر گئے۔ سورۃ التوبہ، آیت ۸٤

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

پیغمبراور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔ سورۃ  التوبہ، آیت ۱۱۳
 اور  مسئلہ تو یہ ہے کہ جہاں مرنے والے نے کوئی منت مانی ہی نہ ہو تو  اسکے لئے رضاکارانہ ایصال ثواب کیسا جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے؟ یعنی آپ اپنے طور سے ہی نیکیاں کر کر کے انکا ثواب مرنے والے کے کھاتے میں ڈالتے رہیں  تاکہ اسکے گناہ کم ہو جائیں اور ثواب زیادہ، بھلا یہ کیونکر ممکن ہے؟ یعنی اگر ایک امیر لیکن انتہا کے  گناہگار اور ظالم انسان  کی وفات کے بعد اگر اسکے  لواحقین پیسہ پانی کی طرح بہا دیں اور ہزاروں قران پڑھ کر انکا ثواب اسے ارسال کر دیں اور صدقے کی دیگ پر دیگ چڑھائیں تو کیا اس سب سے اسکی مغفرت ہو جائے گی  یعنی اسکے لئے بھیجے گئے  ثواب کے کاموں یا نیکیوں کی تعداد اسکے عمر بھر کے گناہوں اور ظلم و زیادتیوں سے بڑھ جائیں گے اور دوسری طرف ایک غریب  گناہگار آدمی صرف اسلئے جہنم میں جھونک دیا جائے گا کیونکہ اسکے پیچھے  ایصال ثواب کی صورت میں ڈھیروں نیکیاں نہیں بھیجی گئیں؟ کیا اللہ کے نظام کے ساتھ اس طرح سے کھلواڑ کیا جا سکتا ہے؟
سو ایصال ثواب کی یہ بدعت اور اس سے منسوب تمام رسومات  دراصل امت میں موجود ان گنت فرقوں (سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبند، اہلحدیث، سلفی وغیرہ) کے مولویوں نے ایجاد کیں تاکہ مرنے والے کے لواحقین کے ایصال ثواب  کے ذریعے ان کی اپنی روٹیا ں اور دعوتیں چلتی  رہیں۔  ظاہر ہے کہ مرنے والے کے  لواحقین محلے کی مسجد کے مولوی صاحب اورانکے مدرسے کے بچوں سے ہی قران خوانی کی خدمات لیں گے اور اسکے عوض انہیں پیسے اور دیگر لوازمات دیئے جائیں گے، اگر ایصال ثواب کے لئے پلاؤ یا مرغ کی دیگ پکے گی تو اسے مولوی صاحب اور انکی ٹولی ہی کھائیں گے، اسی طرح اگر مُردے کے ایصال ثواب کے لئے کیا جانے والے تمام تر صدقہ بشمول مالی ہدیہ و وظیفہ وغیرہ کے پہلے حقدار بھی مولوی صاحب ہی ہونگے۔  اور تو اور دین کے ان ٹھیکیداروں نے تو  قران پڑھنے کے بھی  شارٹ کٹ طریقے ایجاد کر دیئے گئے ہیں جیسے ’بسم اللہ کا قران‘ اور اب تو حال یہ ہے کہ  ان پیشہ ور  مولویوں نے  اپنی اپنی مسجدوں میں  پڑھے پڑھائے قران  رکھے ہوتے ہیں اور مرنے والے کے لواحقین مسجد میں فون کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں پچاس یا سو پڑھے ہوئے قران ہدیہ کر دیجئے اور مولوی صاحب وہیں بیٹھے بیٹھے اس قران خوانی کا ثواب مرنے والے کے  اعمال نامے میں ہدیہ کر دیتے ہیں، یعنی  نئے دور میں ایصال ثواب کے نئے طریقے!   سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ۔ پاک ہے وہ رب  اس سب سے جو کچھ یہ اس سے منسوب کرتے ہیں۔ المومنون۹۱
سو  اس طرح سے  بدعات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی بدعات کا سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے کہ یہ  ایک دفعہ شروع ہو جائیں تو رکتی نہیں  بلکہ طاغوت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔  آج ہم سب جانتے بوجھتے بھی کسی عزیز  رشتہ دار کے مرنے پر قران خوانی اور گٹھلیاں پڑھنے کی محفلیں سجاتے ہیں اورسوئم ، چالیسویں اور برسیاں منعقد کرتے ہیں اور یا پھر معاشرے کے دباؤ میں آکر ان کا حصہ بنتے ہیں۔ تاویلیں یہی پیش کی جاتی ہیں کہ ’’قران ہی تو پڑھ رہے ہیں کچھ غلط کام تو نہیں کر رہے‘‘ لیکن حقیقت میں سب جانتے بوجھتے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اصل خوف معاشرے اور برادری کا ہوتا ہے کہ یہ سب نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ لہذا اپنے اپنے فرقےاور یا پھر خاندان اور معاشرے کے دباؤ  میں آکر ایسی تمام  بداعمالیوں میں شریک ہوا جاتا ہے اور اللہ اوراسکے نبی کی کھلی نافرمانی کرتے ہوئے طاغوت  میں حصہ داری کی جاتی ہے۔ طاغوت  اور اسکے انکار سے متعلق  مزید معلومات کے لئے ہمارا  تفصیلی مضمون  طاغوت  ۔ جُھوٹے خدا  ملاحضہ کیجئے۔

منت، نذر یا اللہ سے کیا ہوا وعدہ

مناسب ہے کہ یہاں منّت اور ایصال ثواب کے فرق کو بھی سمجھ لیا جائے۔ صحیح احادیث سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اللہ سے منّت مانے، جیسے اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں ایک ماہ کے روزے رکھوں گا وغیرہ، لیکن پھر زندگی اسے مہلت نہ دے اور  وہ  اس منّت کو پورا کئے بغیر مر جائے تو ایسی منّت کو اللہ کی طرف قرض سمجھا جائے گا  اور مرنے والے کی اولاد کے لئے ایسی کسی بھی منت کو پورا کرنا لازمی ہوگا۔  اسی لئے اسلام میں منت کی اجازت تو ہے لیکن اسے کوئی مقبول عمل قرار نہیں دیا گیا۔ اور  ہمارے ہاں ہوتا کیا  ہے کہ اس منت کے تصور کو زبردستی ایصال ثواب بنا دیا جاتا ہے یعنی چاہے مرنے والے کی کوئی منت نہ بھی ہو اسکے نام سے  رضاکارانہ طور پر نیک اعمال یعنی قران خوانی، روزے، صدقہ و خیرات اور قربانی وغیرہ شروع کر دیا  جاتا ہے یا  والد یا والدہ کے نام سے منّت یا صدقۂ جاریہ کے طور پر کوئی ہسپتال بنوا کر یا ویلفیرٔ ٹرسٹ وغیرہ کھول کر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نیک کام کا ثواب انکے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا۔ عموماً اس مفروضے کی حمایت میں صحیح بخاری کی ذیل کی حدیث پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دیکھیں ان صحابی  کو بھی تو  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کے لئے صدقہ کرنے کی اجازت دی تھی تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
ابن عباس ؓ سے روایت ہے  کہ سعد بن عبادہ ؓ کی ماں عمرہ بنت مسعود کی وفات ہو ئی تو وہ اس وقت وہاںموجود نہیں تھے ۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا یا رسول اللہ ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا ۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔ صحیح بخاری حدیث، کتاب الوصایا
لیکن جب ہم اس حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے اسی موضوع یعنی سعد بن عبادہؓ کی والدہ کی وفات کے موقع پر روایت کی جانے والی دیگر احادیث پر نظر ڈالیں تو ہمیں صحیح بخاری ہی کی کچھ  اور احادیث  مل جاتی ہے جن سے مطلب صاف ہو جاتا ہے اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سعد بن عبادہ ؓکی والدہ نے بھی اللہ سے منت یا نذر مانی تھی لیکن اسے پورا نہ کر  پائیں لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  انہیں صدقہ کی اجازت دی۔  یہ بات مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت  ہے۔
ابن عباس ؓ نے خبر دی ، انہیں سعد بن عبادہ ؓ نے بتایاکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمہ باقی تھی اور ان کی موت منت پوری کرنے سے پہلے ہو گئی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں فیصلہ کیا  کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے مانی گئی منّت  پوری کر دیں ۔ چنانچہ بعد میں یہی طریقہ مسنون قرار پایا ۔ صحیح بخاری ، کتاب الایمان والنذور
سو  یہاں پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایصال ثواب  میں کئے جانے والے نیک کام ہمیشہ رضاکارانہ طور پرکیے  جاتے ہیں اور اپنے کئے کام کا ثواب مردے کو بخش دیا جاتا ہے  جو کہ منت یا نذر کے مقابلے میں بالکل مختلف معاملہ ہے کیونکہ منت تو مُردے  کے سر سے  اس قرض کو اتارنے کے لئے پوری کی جاتی ہے جسکا مرنے والے نے خود اپنی زندگی میں اللہ سے وعدہ کیا لہذا منت یا نذر  کے حوالے سے ہر حدیث میں یہی ملتا ہے کہ اولاد کو علم تھا کہ مرنے والے والدین نے کوئی منت مانی لیکن پوری نہیں کر پائے لہذا حکم دیا گیا کہ پورا کرو۔

سوئم ، چالیسواں اور برسی وغیرہ

یہ  تمام رسومات بھی برصغیر پاک و ہند میں بہت عام ہیں  جہاں مرنے والے کے لواحقین  وفات کے بعد، پھر تدفین  کے تیسرے، دسویں ، چالیسویں دن اور پھر ایک سال بعد  اسکے گھر جمع ہوتے ہیں جہاں تمام حاضرین میں قران کے سپارے تقسیم کئے جاتے ہیں اور انہیں پڑھ کر اس پڑھائی کا تمام ثواب مرنے والے کو ایصال کر دیا جاتا ہے۔ قران کے علاوہ چنوں اور گٹھلیوں پر بھی  ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں قران کی مختلف آیات یا مختلف اذکار پڑھے جاتے ہیں۔ پھر مرنے والے کے لواحقین اپنی  حیثیت کے مطابق گھر آنے والوں کی آؤ بھگت کا سامان کرتے ہیں کہیں  دیگیں چڑھائی جاتی ہیں  تو کہیں کچھ اور اہتمام ہوتا ہے۔ اکثر اوقات اس کام کے لئے قرضہ وغیرہ بھی لیا جاتا ہے کہ برادری کے سامنے ناک نہ کٹے جائے اور پھر لمبا چوڑا انتظام اور بے جا اسراف دیکھنے میں آتا ہے۔ ظاہر سے بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی سے ایسے کسی عمل یا  محفل کا کوئی ذکر نہیں ملتا لہذا ایسی تمام رسومات بدعت کے زمرے میں آتی ہیں۔ بلکہ قران تو ہمیں بتاتا  ہے کہ مرنے والے کو تو صرف اپنے کیےکا بدلہ ملتا ہے کسی اور کے اعمال کا نہیں جیسا کے اس مضمون کے شروع میں پیش کی گئی  آیات سے ثابت ہے۔
قران کے احکامات، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے اجماع کے مطابق ہونا تو صرف یہ چاہیئے کہ اگر مرنے والے نے ایمان کی حالت میں جان دی تو اسکے لئے دعا مغفرت کی جائے اور بس، یعنی اللہ کی بارگاہ میں اسکے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا مانگی جائے  اور ایسی کسی بھی دعا سے پہلے یا بعد کسی قسم کی عبادت کر کے  اسکا ثواب زبردستی مرنے والے کو بھیجنا ضروری نہیں اور چونکہ ایسا کچھ قران و سنت نبوی سے ثابت نہیں تو اسلام کا حصہ بھی نہیں کہ اگر یہ سب اسلام ہوتا تو یقیناً  اللہ اسے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا دیتا۔ لہذا ایسے تمام کام بدعات ہیں یعنی دین میں کی گئی نئی نئی اختراعات اور ان کا حصہ بننا سخت ترین گناہ کے ساتھ ساتھ اللہ کے اپنے دین کی تکمیل کے  حوالے سے کئے گئے وعدے کا مزاق اڑانا بھی ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ  ہر بدعت گمراہی ہے اور اس کی  سزا جہنم ہے۔


آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ  ہم سب کو دنیا دار کی بجائے صرف دین دار بننے کی توفیق عطا فرمائےتاکہ ہم حقیقی معنوں میں مسلم بن قران و حدیث کی روشنی میں اللہ کے دین کو سمجھ کر اس کا حق ادا کر سکیں۔

اس مضمون کو اسکی طوالت کے باعث مندجہ ذیل  چارحصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔

۞ طاغوت سے کیا مُراد ہے 

۞ طاغوت کا انکار ۔ ایمان اور کُفر میں فرق 

۞ طاغوت کا انکار اور ممتاز علماء دین و مشائخ 

۞ طاغوت کےانکار اور تکفیر میں فرق 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاغوت سے کیا مراد ہے؟
عربی زبان کا یہ لفظ طاغُوت  لفظ طغیٰ سے نکلا ہے جس کے معنی حد سے تجاوز کر جانا یا سرکشی کے ہیں جیسے دریا میں طغیانی آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو پہلی چیز بنی نوع انسان پر فرض کی وہ طاغوت کا انکار یا اسکا ردّ اور اللہ کی توحید کا اقرارتھا۔ اسکا ثبوت ہمیں قران میں سورۃ النحل کی آیت میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ

اور یقینناً ہم نے ہر اُمت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ الله کی عبادت کرو اور طاغُوت سے بچو۔ سورۃ النحل، آیت ۳٦
سوایمان کی جانب پہلا قدم طاغوت کے انکار سے ہی شروع ہوتا ہے ۔ یہاں پر طاغوت سے مراد ایسی تمام شخصیات اورہستیاں ہو سکتے ہیں جو اللہ کے حکم کے خلاف یا اسکی نازل کردہ ہدایت یعنی قران و حدیث کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے فیصلے دیں، حکم  و فتوے جاری کریں یا کوئی نظریہ، نظام و فلسفہ پیش کریں اورپھر ان شخصیات یا انکی تعلیمات اورفیصلوں کو من وعن مانا جائے یا کسی بھی طرح سے انکی تقلید، پرستش اورعبادت کی جا ئے۔ لہذا طاغوت میں والدین سے لے کر استاد، ملک کا حکمران، قاضی یا جج، سردار، سپہ سالار، پارٹی کا صدر یا کوئی سیاسی و مذہبی رہنما، مفتی، عالم و پیر یا درویش وغیرہ یا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
ایک مسلمان کا کام صرف اور صرف ایک اللہ کی پرستش اور صرف اسی کے احکام بجا لانا ہے۔ دراصل لا الہٰ الاللہ کا مطلب بھی یہی ہے یعنی پہلے تمام طاغوتوں اورخداوؤں کا ردّ کیا جائے اور پھر ایک اللہ کی واحدانیت اور اسکی ربوبیّت کا اقرار ہو۔ اسی لئے اگر غور کریں تو کلمۂ شہادت بھی لفظ ’’لا‘‘ سے شروع ہوتا ہے کہ ’’نہیں ہے کوئی اور رب۔ ۔ ۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے‘‘۔ لہذا ایک اللہ کی واحدانیت اور اسکی توحید کا اقرار دیگر تمام خداؤوں اور طاغوتوں کے انکار سے شروع ہوتا ہے خواہ وہ خود زمین پر خدا بن بیٹھیں یا لوگ انکے بعد انہیں زبردستی الہٰ مان لیں۔
طاغوت اور اسکے انکار کی اس اہمیت کو سمجھنے کے لئے آئیے دیکھتے ہیں کہ کسی انسان کو رب یا خدا بنا لینا سے اسلام میں کیا مراد ہے۔

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا خدا بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹےکو بھی حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔ سورۃ التوبہ، آیت ۳۱
عدی بن حاتم ؓ (جو اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائی تھے) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتےسنا کہ ان (اہل کتاب نے) نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا خدا بنا لیا ہے(التوبہ۳۱) تو پوچھا کہ اے نبی یہ لوگ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسل نے فرمایا، یقیناً کرتے تھےکہ جب یہ کسی چیزکو حلال قراردیتےتولوگ اسےحلال سمجھنےلگتےاورجب حرام قراردیتے تووہ اسےحرام مان لیتے۔ اوریقیناً یہی ان کی پرستش ہے ۔ترمذی، کتاب التفسیر
لہذا جب ایک اسلام کا نام لیوا اللہ کے علاوہ کسی اور ہستی کو یہ حق یا اختیار دے دے کہ وہ اسکے لئے اپنی مرضی سے حلال و حرام کے فیصلے کرے یا وہ اس ہستی کی تعلیمات کو قران و حدیث کے احکام اور فیصلوں پر فوقیت دے تو یہ قدرت و اختیار کا شرک ہوگا اور ایسا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی جانتے بوجھتے قران کی کسی آیت یا صحیح حدیث کے فیصلے کا انکار کرے تو اس سے مُراد اللہ کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرنا ہوگا۔ مثال کےطور پر اگرایک مسلمان صلوٰۃ یا نماز کو فرض سمجھتے ہوئے اسکی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی سے کام لے تو وہ گنہگار ہوگا لیکن اگر کوئی یہ کہے کی صلوٰۃ فرض ہی نہیں یا پھر اپنی مرضی سے صلوٰۃ ادا کرنے کا کوئی نیا طریقہ وضع کر لے تو یہ قران کے احکام کا انکار اور اسکی حدود کی خلاف ورزی و تجاوز ہوگا اور ایسا شخص مسلمان نہیں رہے گا یا اسکا مسلمان ہونے کا دعوٰی محض دعوٰی ہی ہوگا۔
طاغوت بظاہر تو ایک لفظ ہے لیکن اس میں ایسے تمام لوگ، عقائد اور دینی رسوم و رواج آجاتے ہیں جن کا دباؤ یا اثر انسان کو اللہ کے اصلی احکام سے دور لے جاتا ہے۔ لہٰذا طاغوت میں جہاں بت پرستی شامل ہے وہیں قبر پرستی یا اپنے اباؤاجداد کی بدعات کو من و عن دین کا حصہ مان لینا اوران میں شامل ہوجانا بھی طاغوت کا حصہ بننے کے مترادف ہے جیسا کہ ہمارے ہاں کسی کے مرنے پرایصال ثواب کی محفلیں جمتی ہیں جن میں قران خوانی یا گٹھلیوں اور چنے کے دانوں پرقرانی آیات و اذکار پڑھ کر اسکا ثواب مُردے کو بخش دیا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر اللہ کی نذرونیاز جیسے عید میلاد و شب برات کا حلوہ، گیارہویں کی نیاز یا کُونڈے کا پکوان کھانا یا اسکا حصہ بننا بھی طاغوت میں حصہ داری ہے کہ ان میں سے کوئی بھی رسم اسلامی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کرامؓ سے ثابت نہیں۔ سو طاغوت کوئی پیر یا مولوی بھی ہو سکتا ہے اور ذرائع ابلاغ بھی جنکی بات دین کی بات پر فوقیت لے جائے اور اسی طرح دیگر مذاہب سے لیے گئے عقائد و رسومات بھی اس میں شامل ہونگے جو زبردستی اسلام کا حصہ بنا دیئے گئے۔ سو اللہ کے احکام کی اتنی کھلی خلاف ورزی کرنے والے کو بھلا کیسے مسلمان یا مسلم امت کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے؟ اور اگر کوئی شخص ایسے طاغوتی کام کرنے کے باوجود  مسلمان ہونے کا دعوےدار بنے تو کیا ہم پر یہ فرض نہیں کہ ہم ایسے شخص کو توحیدِخالص کی دعوت دیں؟
موجودہ دور کے دیگر طاغوتوں کے علاوہ سوشل پریشریا سماجی دباؤ بھی سرفہرست ہے یعنی یہ خوف کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ اگر ہم نے مشہور زمانہ یا پرانی رسوم رواج کی خلاف ورزی کر دی جو ایک ’’اچھا‘‘ پاکستانی مسلمان ہونے کی لئے لازمی ہیں۔ جیسے ہمارے معاشرے میں اگرکوئی اپنے والدین کی وفات پر قران خوانی، سوئم و قُل یا چالیسواں کی بدعات کا انکار کرے تو کیا اسے اسکے عزیز و اقارب اور معاشرہ ایک اچھی اولاد یا ایک اچھا مسلمان سمجھیں گے؟ پھر ہمارے ہاں شادی بیاہ پر بہت سی رسومات بھی ہندومت یا دیگر مذاہب سے ادھار لی گئی ہیں انکا حصہ بننا، یا محلے سے آنے والی میلاد کی دعوت کا انکار نا کرپانا، اسی طرح مزاروں پر جانا، پیری فقیری وغیرہ سب طاغوت کی ہی مثالیں ہیں کہ ہم یا جانتے بوجھتے اور یا پھر معاشرے کے دباؤ میں انکا حصہ بن جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ کہ برصغیر پاک و ہند یا جنوبی ایشیا میں ایک نیا اسلام وجود میں آگیا ہے جس میں ہندومت سے لے کر بدھ مت اورعیسائیت سب ہی کے عقائد و تہوار شامل ہیں۔ پرویز مشرف کا تحفہ ماڈریٹ یا لبرل اسلام بھی اسی کی ایک اور مثال ہے۔
لفظ طاغوت قران میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کچھ آیات ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں۔

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے پھر جو شخصطاغُوت کو نہ مانے اور الله پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیاجو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سننے والا جاننے والا ہے۔ سورۃ البقرہ، آیت ۲۵٦

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُالطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

الله ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست طاغُوت ہیں انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ سورۃ البقرہ، آیت ۲۵۷

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِوَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا وہ بُتوں اور طاغُوتوں کو مانتے ہیں اور کافروں سے یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں سے زیادہ راہِ راست پر ہیں۔ سورۃ النساء، آیت ۵۱

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا

کیا تم لوگوں نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز تم سےپہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ طاغُوت سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دو رجا ڈالے۔سورۃ النساء، آیت ٦۰

الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِفَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا

جو ایمان والے ہیں وہ الله کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغُوت کی راہ میں لڑتے ہیں سو تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو بے شک شیطان کا فریب کمزور ہے۔ سورۃ النساء، آیت ۷٦

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ الله کی عبادت کرو اور طاغُوتسے بچو پھر ان میں سے بعض کو الله نے ہدایت دی اوربعض پر گمراہی ثابت ہوئی پھر ملک میں پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ سورۃ النحل، آیت ۳٦

وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ

اور جو لوگ طاغُوتوں کو پوجنے سے بچتے رہے اور الله کی طرف رجوع ہوئے ان کے لیے خوشخبری ہے پس میرے بندوں کو خوشخبری دے دو۔ سورۃ الزمر، آیت ۱۷

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاغوت کا انکار ۔ ایمان اور کُفر میں فرق
اوپر بیان کی گئی آیات کے بعد اب ہمارا یہ کہنا کہ طاغوت کا انکار کئے بغیر اپنے آپکو مسلمان کہنا محض ایک کھوکھلا  دعویٰ ہے ایک غیر معمولی یا عجیب و غریب بات نہیں رہتی کہ یہ بات قران میں ہی واضح کردی گئی ہے کہ ایمان و عقیدہ کی تکمیل کے لئے اللہ کے علاوہ ایسے تمام عوامل کا انکار لازمی ہے جنہیں ہم نے کسی بھی صورت میں الہٰ بنایا ہو۔ لہذا  ایک شخص جو اپنے آپکو مسلمان کہتا ہے اس میں اتنی ہمت تو ہونی ہی چاہیئے کہ وہ ان فرقوں، انکے جُھوٹے خداؤں اور انکے معاشرے میں پھیلائے ہوئے غلط عقائد و رسومات کو پہچانتا ہواور انکا حصہ  نہ بنے۔ لیکن اگر وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے انکے خلاف کھل کر لڑ نہیں  پاتا تو ایسا شخص ایک کمزور مسلمان ہوگا لیکن کم از کم مسلمان تو ہوگا کیونکہ وہ طاغوت کو سمجھتا ہے اور اس کا حصہ نہیں بنتا۔
یعنی ہم ایمان کو ایک پیمانے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جس میں کمزور مسلمان سے لے کر مومن تک کے ۱ سے ۱۰ تک درجات یا رینکنگ ہو یعنی کمزور ایمان کا درجہ ۱ اگر ایک ہوگا تو ایک مومن کا درجہ ۱۰ ہوگا۔ اب اس پیمانے پر ایک کمزور مسلمان ، جو طاغوت کے خلاف معاشرے میں کُھل کر جہاد نہیں کر پاتا، اس کا درجہ ۱ یا ۲ یا شاید ۳ ہوگا لیکن بہرحال ایسا شخص مسلم تصور ہوگا کہ دل میں اس سب کو برا جانتا ہوگا اور ان سے دور رہتا ہوگا۔ اور دوسری طرف وہ مسلمان جو عملی طور پر ان طاغوتوں اور معاشرے میں انکے پھیلائے ہوئے تفرقے اور فساد کے خلاف نبرد آزما ہونگے اور اسے حوالے سے پیش آنے والی تمام سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہونگے تو یقینناً انکا درجہ ۱۰ یا اسکے قریب کہیں ہوگا۔
ایمان کے برعکس شرک کا کوئی ایسا پیمانہ یا درجات نہیں ہوتے کیونکہ شرک کو تو بذات خود قران میں ظلم عظیم اور ناقابل معافی گناہ کہا گیا ہے لہذا ایک شخص یا تو شرک پر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ یہاں پر کمزور شرک یا بڑے یا چھوٹے شرک پر ہونا جیسی کوئی بات نہیں کہ اس گناہ کی معافی تو ہے ہی نہیں چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ لہذا ایک مسلم کو ہر وقت اور ہر لمحہ شرک یعنی اللہ کی ذات سے شراکت کے اس گناہ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور ایسی ہر رسم، تہوار یا عبادت سے دور رہنا چاہیئے  جس میں شرک و بدعت کا شائبہ بھی ہو اورجسکو پھیلانے والے دین کے لبادے میں چھپے طاغوت ہوں جو اسلامی تعلیمات کے نام پر شرک و بدعت پھیلاتے ہیں۔  لہذا اگر لوگ جنازے میں میت کو قبرستان لے جاتے وقت  اونچی آواز میں کلمۂ شہادت پڑھیں تو ایک مسلمان کا کام نا صرف ایسے عمل سے دور رہنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس سے منع کرنا ہے کہ ایسی کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، یہ بدعت تو برصغیر پاک و ہند میں ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے ایجاد ہوئی جب ہندو اپنی ارتھی شمشان گھاٹ لے جاتے ہوئے رام نام ستیا ہے کی پکاریں لگاتے سو اس وقت مسلمانوں میں موجود نام نہادعلماء نے سوچا کہ شاید اس حوالے سے دین میں کوئی کمی رہ گئی ہے لہذا انہوں نے کلمۂ شہادت کی یہ پُکار ایجاد کرلی تاکہ اعلان کیا جاسکے کہ یہ مسلمان کا جنازہ ہے حالانکہ اسکی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔  اسطرح بات واپس اسی مقام پر آجاتی ہے کہ اسلام کو رہتی دنیا تک کے لئے نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ عیلہ وسلم کے ذریعے مکمل کردیا گیا اور اب کسی کو اس حوالے سے دین میں کوئی نئی ایجاد کرنے کی اجازت نہیں اور ایسی بدعات کو عام کرنے والے تمام طاغوتوں اور انکی رسومات کو رد کرنا لازمی ہے تاکہ معاشرے میں ایمان اور شرک و بدعت کا فرق باقی رہ سکے کہ ایمان اور طاغوت کبھی ایک ساتھ  نہیں چلے سکتے اور طاغوت کا حصہ بننا ہمیں دائرہ اسلام سے باہر لے جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاغوت کا انکار اور ممتاز علماء دین و مشائخ
موجودہ مسلم دنیا میں بہت سے ایسے نامور علماء دین یا سکالرز موجود ہیں جنہیں دینی معاملات یا علوم میں بڑی مہارت حاصل ہے اوریہ لوگ تقریباً تمام فروہی اور روزمرہ زندگی کے حوالے سے مسائل کے حل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں طلاق کے معاملے میں یا بچوں کی پرورش یا پھر وراثت اور دیگر تمام مسائل پر انکے دینی اور قانونی مشوروں کا ایک ڈھیر مل جائے گا لیکن ایمان، شرک اور طاغوت جیسے موضوع جو درحقیقت ایک اسلامی زندگی کی بنیاد اور اساس ہیں ان پر بات یا ان پر تفصیلاً گفتگو نہیں کی جاتی۔ ہمارے خیال میں اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں
۔ ہم انفرادی حیثیت میں یا پھر بحیثیت ایک معاشرہ ایک مسلمان کی تعریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بالفاظ دیگر ہم دنیا کا غلط سے غلط کام کر کے بھی مسلمان ہی رہتے ہیں اور کبھی اپنے مسلمان ہونے کو چیلنج  نہیں کرتے ہیں اور ناہی اپنے عقائد و اعمال کا تجزیہ کرتے ہیں نتیجتاً ہم زیادہ تر ایسے مسائل یا انکے حل ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں جو صرف ایک مسلمان کے ایمان کی تکمیل کے بعد  اہمیت رکھتے ہیں۔
ہم اپنے اندر کسی فرقے یا انکی کسی رسم کا انکار کرنے کی ہمت اکٹھی نہیں کر پاتے چاہے وہ اسلام یا قران و حدیث کے فیصلے کے کتنا ہی خلاف کیوں نا ہو۔ اسی طرح ہمارے بہت سے علماء و مشائخ بھی اپنے اندر یہ حوصلہ پیدا نہیں کر پاتے کہ وہ کسی فرقے یا اسکے پھیلائے کسی خلاف ِقران و حدیث عقیدے و رسم کے خلاف کوئی بات کر سکیں کیونکہ ایسا کام کرنے سے انہیں اپنی شہرت میں کمی کا ڈر یا اپنے پیروکاروں کی تعداد کم ہو جانے کا خوف ہوتا ہے۔
یہاں پر ہم پاکستان کے ایک بہت ہی نامور دینی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد جن کی حال ہی میں وفات ہو گئی کی مثال دینا چاہیں گے  کیونکہ وہ ملک کے  نسبتاً پڑھے لکھے اور مڈل کلاس  طبقے میں  قران اور اسکی تفسیر پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اپنے ایک آڈیو لیکچر میں شرک کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص صبح اذان سننے کے باوجود   بستر سے نکل کر صلوٰة  ادا نہیں کرتا یعنی سستی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسکی یہ حرکت نفس کوالٰہ بنا لینے کی وجہ سے شرک کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔   یقینناً   قران نفس کو الہٰ بنا لینے  کو شرک سے ہی تعبیر کرتا ہے لیکن یہ مثال اس حوالے سے کافی عجیب ہے کہ  اگر ہر ایسی حرکت شرک ہی بن جائے گی تو پھر ہم گناہ کسے کہیں گے ؟  حقیقت یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت اور نفسیات کو سمجھتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کیسے انسان کا نفس اسے بہلاتا پھسلاتا ہے  اور کوشش کرتا ہے کہ انسان صلٰوة کی ادائیگی کی بجائے نرم بستر کو ترجیح دے اور یہ جنگ تو دنیا کے ہر معاملے میں ہر انسان کے ساتھ لگی ہی ہوتی ہے لیکن ایسی کسی صورتحال میں فطری کمزوری کے تحت  نفس کے جال میں آجانا شرک نہیں بلکہ گناہ ہوگا، ہاں اگر انسان مستقل طور پر ہی صلٰوة  ترک کر دے گا یا اگر وہ یہ کہے گا کے صلٰوة یا نماز تو اسلام میں ہے ہی نہیں یا اسے پڑہنا ضروری نہیں تو پھر یقینناً    اس سے مراد نفس کو الہٰ بنا لینا ہو گا لیکن اکا دکا واقعات میں اسے شرک نہیں کہا جا سکتا ورنہ اسکا تو مطلب یہ ہوگا کہ جب غزوۂ احد کے دوران جو صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف پہاڑی کی نگرانی چھوڑ کر دیگر لوگوں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے انہوں نے خدانخواستہ شرک کر دیا۔  اور اسی طرح  شرک کے حوالے سے اپنے   اسی آڈیو لیکچر میں ڈاکٹر اسرار احمد  شاہ ولی اللہ کی کہی ہوئی ایک بات سناتے ہیں کہ اولیاء کی ارواح انکی وفات کے بعد اللہ کے حکم سے فرشتوں کے طبقہ اسفل یا  فرشتوں کے نچلے  درجے کےطبقے میں شامل کردی جاتی ہیں اور پھر اللہ ان سے مختلف کام لیتا ہے۔ اور  پھر یہ واقعہ سنانے کے بعد ڈاکٹر اسرار صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے شرک نہیں۔  یعنی ایک طرف شرک پر اتنا  غیر معمولی حد تک اصرار اور شدت اور دوسری جانب چونکہ اسی حوالے سے ایک غلط تعلیم انکے  پسندیدہ  اور ایک نامی گرامی عالم  کی طرف سے آئی تو  ڈاکٹر  صاحب اپنے دبنگ انداز کے باوجود اس طاغوت کا رد نہیں کر پائے  کہ نہیں بھئی  علماء اور اولیاء کی ارواح کے حوالے سے شاہ ولی اللہ کی کہی گئی یہ بات قران و حدیث کے قطعی منافی ہے اور یہ عقیدہ در اصل امت میں موجود پکار کے شرک کو  ترویج دیتا ہے کہ پھر لوگ اللہ کو مدد کے لئے پکارنے کی بجائے فوت شدہ انبیاء اور اولیاء کو مدد کے لئے پکارنا شروع کر دیتے ہیں جو شرک ہے۔
اسی طرح ہمارے دیگر علماء کا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے معاملہ ہے کوئی انہیں مجسم نور مانتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ وہ نور اور بشر دونوں  ہی تھے اور کسی کا ماننا یہ ہے کہ وہ اللہ کی پہلی تخلیق تھے اور اللہ نے ساری کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے ہی پیدا فرمایا وغیرہ۔  لیکن افسوس کہ یہاں بھی قران و حدیث کے صریحاًٍٍ منافی ان عقائد اور انہیں پھیلانے والے بڑے بڑے ناموں اور القابات والے نام نہاد علماء کا رد نہیں کیا جاتا جو کہ حقیقت میں لا الہ ٰ الااللہ کی  پکار اور اسکا صحیح معنوں میں حق ادا کرنا ہے۔
اسی طرح یہ فرقے اور انکے نام نہاد علماء اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قبر میں زندہ مانتے ہیں اور کہا جاتا ہے کے انکی روح انکے جسمِ مبارک کے ساتھ قیامت تک کے لئے واپس ڈال دی گئی ہے تاکہ وہ اپنی امت کی پکاریں سن سکیں اور  انکے حق میں اللہ کی طرف  وسیلہ بنیں۔ اور بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ پھر ایک قدم آگے بڑھ کر یہی عقیدہ دیگر اولیاء اور صوفیاء کے ساتھ بھی منسوب کر دیا جاتا ہے اور نتیجتاً  کہیں یا نبی اور یاعلی کی پکاریں لگی ہیں تو کہیں یا غوث اور حق باہو بے شک باہو کے نعرے لگے ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر اسی کی بنائی ہوئی مخلوق  جو وفات پا چکی ہے کو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ سب ہندومت سے زبردستی اسلام میں شامل کر دیا گیا اور برصغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے ناموں والے صوفیاء نے اس ’ کار خیر‘  میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے پرستش و پوجا کے لئے ایک  مادی چیز کی ضرورت ہوتی ہے  جو اسے نظر آئے اور جسے وہ چٔھو سکے ۔ مالک کائنات  نے  انسانی فطرت  کی اس تسکین کے لئے اسے    اپنا گھر یعنی کعبہ عطا کیا۔  لیکن ان فرقوں اور انکے موجدصوفیاء نے اسی فطرت کو  ایک غلط سمت دے دی یعنی  انبیاء اور اولیاء کو زبردستی انکی قبروں میں زندہ کرکے امت کو قبر پرستی پر لگا دیا  اور قبروں کے صورت میں لوگوں کو کئی  نقلی کعبے مہیا کردیے۔
اسی طرح سنی اور شیعہ مسئلے کو  بھی ایک فروہی یا سیاسی  اختلاف کا نام دے دیا جاتا ہے حالانکہ یہ  ہر اعتبار سے عقیدے کا مسئلہ ہے جس پر اگر اختلاف رائے ہو تو کوئی ایک ہی ٹھیک ہو سکتا ہے دونوں نہیں کہ اسلام میں ایک ہی معاملے میں دو مخالف عقیدے اور دونوں ہی صحیح  نہیں ہو سکتے۔ لہذا اس حوالے سے بھی بات کر کے مسئلے کو اجاگر یا اس پر بات چیت نہیں کی جاتی کہ معاشرے کا خوف مانع آتا ہے اور لوگ بھی ناراض ہوتے ہیں۔
لہذا ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ہمارے یہ علماء اپنی اپنی گد ی  یا اپنے پیروکاروں کی تعداد بچانے کے لئے ان اہم اور جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنے والے ایشوز پر یا تو بات ہی نہیں کرتے اور یا  پھر انکے حوالے سے دی جانے والی غلط تعلیمات کو چھپاتے ہیں  تاکہ نہ معاشرے کا سخت رددعمل دیکھنا پڑے اور نا  اپنے  مریدین کی تعداد میں کمی ہو۔ اعمال اور دیگر فقہی مسائل پر تو بڑی بڑی کتابیں لکھ دی جاتی ہیں لیکن اصل مسائل اور انکے حوالے سے طاغوت کے انکار کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ اور تو اور ہمارے ہاں دین اسلام کے پیروکاروں کی اکثریت تو طاغوت کے لفظ اور اسکے معنی سے ہی نا آشنا ہے۔ اور اسکی وجہ لوگوں کی ذاتی طور پر دین سے دوری تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ  ان نام نہاد علماء کی کمزوری بھی اسکی بڑی وجہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاغوت کےانکار اور تکفیر میں فرق
ہمارے ہاں اکثر ان دو مختلف  خیالات تصورات  یعنی طاغوت کے انکار اور تکفیر کو ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ  جہاں تک اسلامی عقائد کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تکفیرکو کبھی بھی کوئی غیر معمولی اہمیت  نہیں دی گئی  اس کے برعکس عقائد کے حوالے  سےطاغوت کا انکار بنیادی اہمیت کا حامل ہے جیسا کے پہلے بیان ہوا۔
طاغوت کے انکار میں دین کے حوالے سے تمام غلط عقائد، رسومات اور تعلیمات اور انہیں ایجاد کرنے والوں کا رد شامل ہے جو قران و سنت کی کسوٹی پر پورے نہ اترتے ہوں۔ سو  غلط عقائد  و رسومات اور انہیں ایجاد کرنے والے یا انکی سرپرستی اور معاشرے میں انہیں عام کرنے والے دونوں ہی طاغوت کے زمرے میں آتے ہیں۔  یہ اسلئے کہ ایک  پیداوار کو  اسکے بنانے والے کاریگر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا طاغوت کے انکار کی مد میں بات غلط عقائد اور رسومات سے شروع ہو کر ان شخصیات پر آکر ختم ہوگی جنہوں نے انہیں ایجاد کیا اور  دین اسلام کے نام پر انکی ترویج کی۔  ہمارے ہاں غلط عقائد  یا طاغوت کے انکار کے حوالے سے ایک تاویل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ ہو سکتا ہے انہیں ایجاد کرنے والوں نے اپنی وفات سے پہلے اللہ سے معافی طلب کی ہو۔ لہذا صرف غلط عقائد کا انکار ہی کیا جائے  نا کہ ان بڑی بڑی اور نامور ہستیوں کا جنہوں نے ان عقائد کو پھیلایا۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس حوالے سے اسلام میں ہمیشہظاہر پر فیصلہ کیا جاتا ہے  لہذا جب کسی شخصیت کے بارے میں   غلط تعلیمات کے حوالے سے باقاعدہ ثبوت مل جائیں تو پھر ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ انہیں ایجاد کرنے والے یا پھیلانے والے کا بھی اس انداز میں رد کیا جائے گا۔  یہ اسلئے بھی کہ ہر انسان اپنی  عقل   و فہم اور اپنے علم اور تجربے کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور جب ہمیں کسی کے شرک و کفر کے  حوالے سے واضح اور باقاعدہ  ثبوت مل جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ اس شخصیت کے حوالے سے اللہ سے معافی یا اپنے مؤقف سے توحید پر واپسی کا ثبوت نا ملے تو پھر ہمیں ایسے شخص کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا کہ وہ غلط عقائد پر تھا چاہے وہ  قریبی رشتہ دار  ہویا پھر نامورعالم دین۔  اللہ سبحان و تعالٰی  ارشاد فرماتا ہے۔

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

پیغمبراور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔  سورۃ التوبہ ۱۱۳
یقینناً  ہماری اکثریت کے لئے ایسا کرنا بہت مشکل ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بالکل وہی فارمولا ہے جس کے تحت ہم  مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسکی موت کفر پر ہوئی  ۔ ہم اسے کافر  اسی لئے مانتے ہیں کہ ہمیں اسکے حوالے سے اسکی زندگی میں کفر یا قران و سنت کے واضح انکار  کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن اسی حوالے سے اللہ سے معافی  مانگنے یا اپنی روش تبدیل کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا  لہذا ہم اس حوالے سے ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں۔ ورنہ اگر ہر عالم یا راہنما  کے بارے میں  اندازے لگا کر انہیں رعایت ہی دینی ہے تو پھر مرزا کو کیوں نہیں؟ سو وجہ ایک بار پھر ظاہر پر فیصلہ کرنے کی ہی ہے  اور یہی حکم ہمیں صحیح بخاری کی ذیل کی حدیث بھی ملتا ہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے، میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔ صحیح بخاری ، کتاب الحیل
 کسی بھی انسان کے حوالے سے حق و باطل کا  فیصلہ اسی طریقئہ کار کے مطابق ہوگا جو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کی نظرمیں کسی انسان کی  اہمیت صرف اسکے تقوے کے حوالے سے ہی ہوتی ہےیا پھر اسکے نیک اعمال سے لیکن ان دونوں کا وزن اسی صورت ہوگا جب عقیدہ  قران و سنت کے مطابق درست ہوگا۔ سو اگر ایک  بہترین انسان بھی اگر اسلام کے علاوہ کسی اور عقیدے یا مذہب پر جان دیگا تو آخرت میں اسکا کوئی حصہ نہیں ہوگا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اسے ایک آسان موت ملے یا پھر  قبر  یعنی برزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے لیکن اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیونکہ آخرت کی کامیابی اور کامرانی تو صرف صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے ہی  ہے وہ صحیح عقیدہ جسکا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور جس کا پرچار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ ایسی  ہی ایک مثال  مدر ٹریسا کی ہے جس نے ایک بہترین انسان کے طور پر زندگی گزاری اور اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیا لیکن موت تو اسکی بھی عیسیٰ علیہ سلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہوئے  یعنی  شرک کی حالت میں ہوئی لہذا آخرت میں اسکے لئے کوئی حصہ اور صلہ نہیں ہوگا۔
ثابت یہ ہوا کہ جب ہمیں کسی  شخص کے بار ےمیں  ثبوت کے ساتھ یا ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر یقین ہو کہ اسکی وفات شرک و کفر کی حالت میں ہوئی تو پھر ہم اسے مشرک یا کافر  ہی سمجھیں گے  کیونکہ موت کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ہاں  اب اسکا مطلب یہ بھی  نہیں کہ ہم اسے اسکی زندگی میں بطور تضحیک کافر یا مشرک کہ کر بلائیں یا ان الفاظ کا استعمال اس پر ایک  لیبل کی صورت میں  لگا دیں۔ اس بات کو سمجھ لینا ہی دراصل  اللہ کی کتاب اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات  کے مطابق طاغوت کا انکار کرنا ہے ۔ یہی طاغوت کا رد ابو بکر ؓ اور ابو جہل کے درمیان فرق سکھاتا ہے۔
اب آئیے ان لوگوں کی طرف جو ابھی زندہ و حیات ہیں لیکن حالت شرک میں ہیں۔ یہاں سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ لوگوں  کے درمیاں تمیز  انکے عقائد اور اعمال کے مطابق ہی کی جاتی ہے، جیسے  ایک چوری کرنے والا جس پر الزام ثابت ہو جائے اسے  چور  کہا جائے گا  اور اسی طرح رشوت لینے والے کو راشی ہی کہا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جب قران اور صحیح حدیث کی روشنی میں کسی کے بارے میں یہ واضح ہو جائے کہ وہ شرکیہ عقائد و اعمال پر ہے تو پھر ایسے شخص کو مشرک ہی کہا جائے گا یہاں تک کہ وہ اپنے عقائد درست کرلے۔ ہم ایک ہندو یا وعیسائی کو بھی بالکل اسی اندازیا فارمولا کے مطابق مشرک کہتے ہیں ۔  اور ویسے بھی کافر یا مشرک کی یہ اصطلاحات خدانخواستہ گالیاں یا فحش الفاظ نہیں  بلکہ  یہ قرا ن میں موجود  اصطلاحات ہیں جو ایک خاص قسم کا یعنی خلاف قران و حدیث عقیدہ رکھنے والے یا عمل کرنے والے لوگوں پر لاگو ہو جاتی ہیں۔ اور اسی طرح  جب یہ شخص اپنے مشرکانہ  عقائد و اعمال سے تائب ہو جائے اور توحید پر صحیح معنوں میں عمل کرنے لگے تو پھر اسے مسلم مان لیا جائےگا۔  جب  بھی اسے دین کی دعوت دی جائے گی تو حکمت و مصلحت اور پیار محبت کے ساتھ اور اگر پھر بھی ایسا شخص توحیدِ خالص کی طرف نہیں آئے گا  یا غصے کا اظہار کرے گا تو صبر سے کام لیا جائے گا اور اگر وہ پھر بھی اپنی ضد پر مصر رہے تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا کہ دین میں کوئی جبر نہیں   لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ
سو  مشرک سے مراد  صرف ایک ہندو ہی نہیں جو اللہ کے علاوہ بہت سے خداؤں کو مانتا ہے بلکہ ایک خدا کو ماننے  کا دعویٰ کرنے والے  مذاہب کے لوگ بھی شرک پر ہو سکتے ہیں   جیسا کہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے اپنے مذہب  کی اصل تعلیم یعنی توحید پرستی کو چھوڑ کر اپنے انبیاء اور  علماء کو  خدا ، خدا کا بیٹا یا خدا جیسی ہستی بنا لیا  اور  انہیں مدد کے لئے پکارنے اور ان سے فریادیں کرنے لگے اور یوں  یہ دونوں مذاہب  توحید کے پیغام سے شروع ہو کر اسکی ایک بگڑی ہوئی شکل بن گئے  ورنہ موسٰی علیہ سلام اور عیسٰی علیہ سلام دونوں بشر تھے  اورتوحید  یعنی ایک اللہ کی بندگی اور عبادت کا پیغام لائے تھے۔  اور بالکل اسی طرح آج کا ایک کلمہ گو بھی شرک پر ہو سکتا ہے   یعنی اگر وہ زبان سے تو  کلمہ  پڑھے لیکن  پھر بالکل ایک عیسائی یا یہودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے  اپنے  پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی ذات یا اسکے نور کا حصہ بنا ڈالے یا اللہ کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ یا اولیاء جو وفات پا چکے ہیں ان  کو مدد کے لئے پکارے  ،ا نکی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لے یا انکی بات یا فتوؤں کے  آگےقران و حدیث کےاحکام کا انکار کردے۔   ایسے شخص کو بہرحال مشرک ہی سمجھا جائے گا اور اس معاملے میں صرف اسکے کلمہ پڑھ لینے  یا سوم و صلوٰة کی پابندی کو اسکے مسلمان ہونے کے لئے کافی نہیں سمجھا جائےگا ، یعنی کسی کے مسلمان ہونے کے لئے اسکا مسلمانیت کا دعوٰی کافی نہیں بلکہ اسکا فیصلہ  اسکے عقیدہ اور عمل کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھ کر کیا جائے گا۔ چاہے ایسا شخص ایک عام آدمی ہو یا پھر کوئی نامور عالم دین، آخر کو ابو جہل بھی تو  دین ابراھیمی پر ہونے کا دعویدار اور اپنے وقت کا مشہور  ومعروف عالم تھا ۔ دیگر  مکہ والوں کی مثال بھی ایسی ہی ہے جو شرک پر مر گئے  کہ   وہ بھی آج کی امت کی اکثریت کی طرح اپنے آپکو  دین ابراھیمی کے بہترین پیروکار  کہتے تھے  لیکن ہم آج بھی انہیں مشرکینِ مکہ کے نام سے جانتے ہیں۔
ہاں یہ کہ یہاں پر معاملہ کسی کو لیبل کرنے کا   نہیں کہ ایسے ہر انسان کے پاس اپنی زندگی میں  ہر وقت توبہ کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہمیں ایسے شخص کو سمجھانے  کا موقع ملے تو حتٰی الامکان اس میں نرمی اور محبت سے کام لینا چاہیئے اور  ہمارے برتاؤ یا سمجھانے کے انداز سے ایسا نہیں لگنا چاہیئے جیسے ہم اس کا مزاق اڑا رہے ہیں ورنہ وہ ہماری بات کبھی غور سے  نہیں سنے گا اور نا ہی اس پر کبھی سوچے گا۔  یاد رکھیں کہ ایک اچھے اور نرم انداز سے کی جانے والی بات میں بہت اثر ہوتا ہے  لیکن اگر انداز ٹھیک نا ہو تو صحیح بات بھی اپنا اثر کھو دیتی ہے   لہذا سورة العصر کا  پیغام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے جو ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ  لوگوں کو حق بات کی تلقین کی جائے اور اس راستے میں آنے والی تمام مشکلوں یعنی سخت ردِعمل یا غصے کو صبر اور خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے۔ ویسے بھی  دین کے حوالے سے سمجھائی جانے والی بات پر  لوگوں کا بھڑک اٹھنا ایک فطری عمل ہے کیونکہ ہماری اکثریت اسلام کو خود سمجھ کر اس پر چلنے کی  بجائے اپنے باپ دادا کے دین پر چلتی ہے  اور جب انہیں اس حوالے سے سمجھایا جائے تو آگ بگولا ہونا ایک فطری چیزہے اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ہمارا  اپنا  ردِعمل بات کو بنا یا بگاڑ سکتا ہے ۔ لہذا جب اللہ کے دین کا پرچارکرنے کا بیڑا اٹھا ہی لیا تو پھر اسے درست انداز میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سنت کے مطابق ہی ہونا چاہیئے یعنی اس راہ میں آنے والی صعوبتوں پر سرِ تسلیم خم کیا جائے اور محبت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ، اور ویسے بھی ایک مسلمان کا رویہ بہرحال ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ ہمارے ہاں فرقے عموماً اسی لئے آپس میں  ہر وقت جھگڑتے ہیں کہ  وہ اپنے آپکو تو صحیح گردانتے ہی ہیں پر اسکے علاوہ ہر ایک کو کیڑا مکوڑا خیال کرتے ہیں  ،فرقہ پرستی کا یہی نقصان ہے۔ جبکہ ایک مسلمان کی روش ان سب  سے ہمیشہ مختلف ہونی چاہیئے  کہ اسلام ایک فلاح کا راستہ و دین ہے اور فلاح کی جانب ہمیشہ محبت  اور خلوص سے ہی بلایا جاتا ہے۔
السّلام علیکم و رحمتہ اللہِ و برکاتہٗ

MKRdezign

رابطہ فارم

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget