اُمّت مسلمہ میں زبردستی ایجاد کردہ بہت سے مذہبی تہواروں میں سے ایک اورتہوار یعنی بڑی گیارہویں شریف کی آمد آمد ہے۔ یہ تہوار ہر سال ماہ ربیع الثانی کی گیارہ تاریخ کو مشہور صوفی شیخ عبدالقادر جیلانی،’’ المعروف غوث الاعظم‘‘ کی سالگرہ کی خوشی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بریلوی فرقے میں اس بدعتی تہوار کی محبت اتنی شدید ہے کہ انہوں نے اس اسلامی مہینے کا نام ہی بدل کر’’ ربیع الغوث‘‘ رکھ دیا ہے بالکل ویسے جیسے انہوں نے اس سے پچھلے اسلامی مہینے یعنی ربیع الاول کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کی مناسبت سے بدل کر ’’ربیع النور‘‘ رکھ دیا ہےکیونکہ اس فرقے کا ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اپنی ذات کے نُور سے تخلیق کیا یعنی مبالغہ آرائی میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ خالق اور مخلوق کا فرق ہی ختم کر دیا۔
لفظ ’’غوث‘‘ کے معنی مددگار کے ہیں اور عبدالقادر جیلانی کو غوث الاعظم کہا جاتا ہے یعنی ’’سب سے بڑا مددگار‘‘۔ ہمارے خیال میں تو یہ لقب اور اس جیسے دیگر تمام القابات صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لئے ہی مناسب ہیں کہ سب سے بڑا مددگار، مشکل کشا، داتا، دستگیر، گنج بخش، غریب نواز، بگڑیاں بنانے والا، بیڑیاں پار لگانے والا تو صرف اور صرف اللہ باری تعالیٰ ہی ہے لیکن پھر بھی یہ فرقے اللہ کی ذاتی خصوصیات اور صفات کو انسانوں اور وہ بھی مردہ انسانوں سے وابستہ کرلیتے ہیں اور پھر انہیں مدد کے لئے پکارنے لگتے ہیں۔
لہذا نتیجہ یہ کہ لوگ آج ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو چھوٹی گیارہویں مناتے ہیں اور ہر سال ۱۱ ربیع الثانی کو بڑی گیارہویں منائی جاتی ہے اور اسی مناسبت سے عبدالقادر جیلانی کو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے اور یا پھر انہیں دعاؤں میں وسیلہ بنایا جاتا ہے ۔ مشرکین مکہ کا بھی اپنے اکابرین کے حوالے سے یہی عقیدہ تھا اور وہ کہتے تھے کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ آج امت میں ہر طرف پھیلے شرک و بدعت کے اس فساد کی جڑ دراصل قبروں میں مدفون انسانوں کو زندہ ماننے کا عقیدہ ہے جن کے حوالے سے یہ مانا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے برگزیدہ لوگ جنہیں قبر میں اترنے کے لئے تو چار لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن قبروں میں جا کریہ زندہ بلکہ زندہ انسانوں سے زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں اور پھر اپنے پکارنے والوں کی پکاروں اور فریادوں کو براہ راست سنتے ہیں اور انکے لئے اللہ سے دعا اور سفارش کرتے ہیں۔
ہم نے اس بلاگ پر بدعات کے حوالے سے پہلے ہی کافی کچھ لکھ رکھا ہے لیکن اس مضمون میں ہمارا مقصد عبدالقادر جیلانی کی کچھ تعلیمات کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنا ہے اور یہ اسلئے کہ انہیں موجودہ امت میں تقریبا تمام فرقوں بشمول بریلوی، دیوبند اور اہلحدیث و سلفی وغیرہ میں ناصرف یکساں مقبول حاصل ہے بلکہ بڑے نامی گرامی عالم دین، روحانی شحصیت اور شیخ مانے جاتے ہیں۔ ہم ذیل میں عبدالقادر جیلانی کی کچھ تعلیمات جو انکی مشہور زمانہ اور متفقہ علیہ کتاب غنیتہ الطالبین سے لی گئی ہیں سے کچھ اقتباسات سکین تصویروں کی صورت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ قران و حدیث کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا جائے۔
عبدالقادر جیلانی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کا عقیدہ
مندرجہ ذیل سکین صفحے پر سورة النساء کی آیت ۶۴ کی روشنی میں عبدالقادر جیلانی اللہ سے دعا کرتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکی قبر پر یا رسول اللہ کہ کر پکارنے یا مخاطت کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔
یعنی باوجود اسکے کہ نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں، عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں
اب میں تیرے نبی کی خدمت میں توبہ کرتا ہوا معافی کا طلب گار ہو کر حا ضر ہوا ہوں۔
الہٰی میں تیرے نبی کے وسیلہ سے جو نبی الرحمتہ تھے، تیری طرف رجوع کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ معاف فرما دے۔ الہٰی میں تیرے نبی کے طفیل تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے لئے مغفرت کو اسی طرح واجب کر دے جس طرح تو نے ان لوگوں کے لئے واجب کر دی تھی جو تیرے نبی کی زندگی میں ان کے پاس حاضر ہو کر گناہوں کی معافی کے طلب گار ہوئے اورنبی نے بھی انکے لئے معافی مانگی اور تو نے انکی مغفرت فرما دی۔ الہٰی میں تیرے نبی کے وسیلہ سے جو نبی الرحمتہ تھے تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ یا رسول اللہ میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ میرے گناہ معاف فرما دے اور مجھ پر رحم کر۔ غنیتہ الطالبین، صفحہ ۳۴
اور آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے اللہ اپنی کتاب میں ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَاور الله کے سوا اس چیز کی پرستش کرتے ہیں جونہ انہیں نقصان پہنچا سکے اورنہ انہیں نفع دے سکے اور کہتے ہیں الله کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہیں کہہ دو کیا تم الله کو بتلاتے ہو جو اسے آسمانوں اور زمین میں معلوم نہیں وہ پاک ہے اوران لوگو ں کے شرک سے بلند ہے۔ سورة یونس، آیت ۱۸
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے۔ سورة السجدہ، آیت ٤
عبدالقادر جیلانی اور تعویذات
صحیح احادیث ہمیں بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعویذات سے سختی سے منع فرمایا۔
عبدالرحمٰن بن رافع ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ مجھے کوئی غرض نہیں اس بات سے کہ اگر میں تریاق پی لو یا تعویذ لٹکا لوں یا اپنی جانب سے اشعار کہوں۔ ابو داؤد، باب طب
عیسٰی بن حمزہؓ کےسو ہیں کہ میں عبداللہ بن عکیمؓ کے پاس عیادت کے لئے گیا وہ ’’حمرہ (سرخ بادا)‘‘ کی بیماری میں مبتلا تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ حمرہ کے لئے تعویذکیوں نہیں لٹکا لیتے؟ تو انہوں نے کہا کہ تعویذ سے اللہ کی پناہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کوئی بھی چیز لٹکائی تو وہ اسی چیز کے سپرد کر دیا جائے گا۔ ابو داؤد، مشکوٰۃ صفحہ ۳۸۹، ترمذی جلد ۲ صفحہ۲۸
عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تعویذ، گنڈے وغیرہ سب شرک ہیں۔ ابو داؤد، باب طب، موٰو ۃ صفحہ ۳۸۹
اور اب ان احادیث کا موازنہ ذیل میں دیئے گئے سکین میں عبدالقادر جیلانی کی تعلیمات سے کیجئے جس میں انہوں نے تیز بخار اور دردِ زہ کی تکلیف سے دُوری کے لئے تعویذ بنانے کا طریقہ بتایا ہے۔
عبدالقادر جیلانی اور شب برأت
صحیح بخاری و مسلم میں کچھ احادیث ملتی ہیں جن میں ایک واقعے کا ذکر ہے جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات جب وہ عائشہؓ کے حجرہ میں تھے اچانک اُٹھ کر جنت البقیع میں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر مدفون شہداء کے لئے دعا مغفرت کی۔ یہ حدیث عائشہ سے روایت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گئیں اور انہیں تین بار آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے دیکھا اور بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل بیان کی تو فرمایا کہ جبرائیل علیہ سلام اللہ کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم لے کر آئے تھے۔ اور ہمارے ہاں اس سارے واقعے کو زبردستی ایک انتہائی اہمیت کے حامل مذہبی تہوار میں تبدیل کر دیا گیا اور یوں شب برأت ایجاد کی گئی۔ حالانکہ کسی صحیح حدیث سے یہ ثبوت نہیں ملتا کہ یہ واقعہ ۱۵ شعبان کو پیش آیا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھی کبھی نہیں دیا کہ ایسا کرنا تمام مسلمانوں کے لئے لازمی یا مستحب ہے یعنی کسی خاص رات کو قبرستان جا کر وہاں مدفون لوگوں کے لئے دعا مغفرت کی جائے۔ لیکن آج اسلام کے نام لیواؤں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ نا صرف دین میں ایک باقاعدہ تہوار ایجاد ہو گیا ہے بلکہ اور بہت سے بدعات اور خرافات بھی اسے سے جوڑ دی گئیں جنہیں ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔
۔ نصف شعبان کی رات کو اسلام میں ایک انتہائی مبارک رات کی حیثیت حاصل ہے جس میں اللہ تعالی زندگی، موت اور تقدیر کے فیصلے کرتا ہے لہذا اس رات کو کی گئی عبادت جیسے نوافل، اذکار اور دیگر عبادات کا ثواب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔۔ اس رات کی صبح یعنی اگلے دن روزہ یعنی سوم رکھنا باعث ثواب عمل ہے۔۔ اس دن قبرستان میں اپنے عزیز و اقارب کی قبور پر جانا اور انکے لئے مغفرت کی دعا کرنا چاہیئے۔۔ اسی طرح اس رات کو بچے اور بڑے مل کر ہندو تہوار دیوالی کی طرز پر آتش بازی بھی کرتے ہیں اور دن میں حلوہ پکا کر تقسیم کیا جاتا ہے۔۔ شیعہ فرقہ کا ماننا ہے کہ ۱۵ شعبان انکے بارہویں امام یعنی امام مہدی کی تاریخ پیدائش ہے۔
شب برأت کے اس بدعتی تہوار کے حق میں دلائل اور اسے صحیح طور سے منانے کے طریقے ہمیں عبدالقادر جیلانی کی اسی کتاب غنیتہ میں مل جاتے ہیں، ملاحضہ کیجئے ذیل کی سکین تصویر جہاں وہ زبردستی یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قران کو بھی نصف شعبان کی اس رات کو نازل کیا حالانکہ یہ معاملہ تو اللہ نے قران کی سورة القدر میں بیان کر دیا اور فرمایا کہ ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے‘‘ اور اسی طرح سورة الدخان کی شروع کی آیات میں بھی بیان کیا کہ’’روشن کتاب کی قسم ہے۔ ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے۔‘‘ اور مزید قران میں اس حوالے سے بھی بتا دیا گیا کہ اللہ کی کتاب کو رمضان کے مہینے میں اتارا گیا جیسا کہ اللہ سورة البقرہ کی آیت ۱۸۵ میں ارشاد فرماتا ہے ’’رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘ اسی طرح بخاری و مسلم کی صحیح احادیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بتایا کہ قران شب قدر کو نازل کیا گیا اور فرمایا کہ ’’اس رات کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو‘‘۔ جبکہ یہاں پر حال یہ ہے کہ اتنے نامی گرامی عالم اور لوگوں کے ’’غوث الااعظم‘‘ فرما رہے ہیں کہ یہ نصف شعبان کی رات تھی۔
Screenshot
عبدالقادر جیلانی اور ایصال ثواب
اسی طرح اپنی اس کتاب میں عبدالقادر جیلانی ایصال ثواب کی بدعت کی تعلیم بھی دیتے ہیں یعنی مُردہ انسانوں کے لئے رضاکارانہ طور پر نیک کام ، ذکر و ازکار اورعبادات وغیرہ کرکے اسکا ثواب انہیں ارسال کیا جائے۔
Screenshot
اس کتاب کے علاوہ دیگر بہت سی کتابوں میں بھی عبدالقادر جیلانی کے حوالے سے بے شمار مافوق الفطرت کارنامے اور انکے حوالے سے کئے ہوئے بہت سے حیران کن دعوے مل جاتے ہیں جیسے کہ عبدالحق محدث دہلوی کی اخبار الاخیار وغیرہ جن میں عبدالقادر جیلانی کے ہوا میں اڑنے کے قصوّں سے لے کر غیب کا تمام علم رکھنا اور دیگر بہت سے کہانیاں ملتی ہیں اور نتیجتا ً امت میں شخصیت پرستی کے رحجان کو تقویت ملتی ہے اور لوگ قران و حدیث سے سبق لینے کی بجائے ان طلسماتی کہانیوں کو پڑھ کر خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں میں بھی یہی گمراہی پھیلاتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ ہمیں ایسے تمام معاملات میں لوگوں یا ان گمراہ فرقوں کے پیچھے لگ کر ہر کام کرنے کی بجائے خود قران و صحیح حدیث کو کھول کر تحقیق کرنا چاہیئے اور صرف اسی صورت میں یہ عقدہ کھلتا ہے کہ اسلام کے لبادے موجود بہت سے جھُوٹے عقائد اور عبادات درحقیقت بدعات یا دین میں کی گئی اختراعات ہیں جن کا اللہ کے دین ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور صحابہ کرام ؓ کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بہت سے معاملات میں تو یہ تمام عقائد و رسومات قران و حدیث کے احکام کے قطعی منافی نظر آتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بحیثیت مسلمان ہمارے اندر ایسے تمام جُھوٹے عقائد و رسومات کا ردّ کرنے یا ان کا حصہ نہ بننے کا حوصلہ ہونا چاہیئے اور ہمیں ان کا انکار اس بات سے ماورا ہو کرکرنا چاہیئے کہ ان بدعات کو پھیلانے والوں کے نام کتنے بڑے ہیں یا وہ کتنی مشہور شخصیات ہیں کیونکہ ایک مسلمان کے لئے دین کے احکامات اور انکی تصدیق کا پیمانہ قران و حدیث ہیں نہ کہ مشہور لوگ جن کے نام تو بہت بڑے ہیں اور جنکے القابات کی قطار بھی بہت لمبی ہے لیکن انکی تعلیمات قران و حدیث کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں۔ لہذا ایسے تمام بڑے بڑے ناموں اور انکی دین میں کی گئی اختراعات کا ردّ اور اس سب سے برأت کا اظہار ایمان کی تکمیل کے لئے لازمی شرط ہے بلکہ دوسروں کو بھی ان سے بچانے کی کوشش کرنے چاہیئے تاکہ لوگ اصل دین سے روشناس ہو سکیں اور ہر عقیدے، رسم اور تہوار کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھیں اور دیکھیں کہ آیا ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔
مضمون کے آخر میں ایک مرتبہ پھر ہم اپنے پڑھنے والوں کو طاغوت کی صحیح نشاندہی اور اسکے انکار کی اہمیت کا احساس دلانا چاہیں گے اور گذارش کریں گے کہ ان معاملات پر خود غور کریں اور دین کو سمجھنے کے لئے ذاتی تحقیق کی اہمیت کو سمجھیں۔ اسلام شخصیت پرستی کا دین نہیں لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے دین اسلام کو خود سمجھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی شخصیت پرستی ہے۔ لہذا ہماری سب قارئین سے یہی گذارش ہے کہ گیارہویں کی اس بدعت اور اس جیسی دیگر تمام بدعات سے اپنے آپکو دور رکھیں اور اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب اور جاننے والوں کو بھی یہی باور کرائیں۔
Post a Comment