فرقہ پرستی ۔ ایک جائزہ

مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ

۔[اور نہ] ان لوگوں میں [ہونا] جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور [خود] فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے۔ سورۃ الروم، آیت ۳۲

ہمارے ہاں عموماً لوگ اس لئے فرقہ پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو یہی سب کرتے دیکھتے ہیں۔ سو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری اکثریت اپنے اباؤ اجداد کے دین پر جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر چلتی ہے بالکل ویسے جیسے چودہ سو سال پہلے اہل مکہ کا طریقہ تھا۔ اسی طرح لوگ ایک دوسرے پر مختلف قسم کے توہین آمیز لیبل اور تہمتیں اس لئے لگاتے ہیں کیونکہ یہی سب کرنے کی تعلیم انہیں انکے فرقوں کی جانب سے ملتی ہے۔ اسی لئے ہر بریلوی کے لئے ہر غیر بریلوی سے مراد  وہابی، نجدی یعنی کافر اور دین سے منحرف ہونا ہے۔ اسے اس  بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ دین اسلام حقیقت میں کیا ہے اور شاید  اسے اس دین کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسے اس حوالے سے صرف اتنی سی  بات ذہن نشین کروادی گئی ہے کہ دین کی باریکیوں کو سمجھنا تو چند گنے چنے اللہ کےخاص بندوں کا کام ہے اور یہ سب کسی عام آدمی کے بس سے باہر ہے لہذا عام آدمی کا کام تو بس صرف اتنا ہے کہ وہ اعلی شجرہ نسب کے مالک ان خواص کے  بہت سے سلسلوں میں سے ایک سلسلہ پکڑ لے اور پھر انکی اندھی تقلید میں زندگی گزارے، بس ہہی اسکا اسلام بھی ہے اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بھی۔ اور پھر یہ کہ جو کوئی اس سے یا اسکے پیر و مرشد کے بات سے اختلاف رکھے وہ دین سے منحرف ہوگا اور بس۔
اگر ہم مختصرأ جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان فرقوں کے عقائد میں بہت چھوٹی چھوٹی اور ضمنی باتوں پر اختلاف نظر آتا ہے جیسا کہ ہمیں بریلوی اور دیوبند کے درمیان دیکھنے کو ملتا ہے جو دونوں ہی اپنے آپکو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں یعنی دونوں ہی  اپنے آپ کوحنفی کہتے  ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے صوفیت یا تصوف کے پیروکار ہیں جو اسلام، ہندومت اور بدھ مت کا مجموعہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک گروہ  ہندوستان کے داراعلوم دیوبند اور اسکے سرکردہ علماء جیسے اشرف علی تھانوی یا ذکریا  کاندھلوی کا اندھا پیروکار ہے تو دوسرا احمد رضا خان بریلوی کی تقلید میں مبتلا ہے اور اسی حوالے سے چند مسائل پر اختلاف بھی ہے۔
  اصل میں ان دونوں فرقوں میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں ابوحنیفہؒ کی تعلیمات اور انکے بتائے ہوئے عقائد پر عمل پیرا نہیں بلکہ یہ دونوں گروہ اپنے اپنے فرقے کے بعد میں آنے والے علماء کی اندھی تقلید کرتے ہیں اسی لئے انکے بہت سے عقائد  ابو حنیفہؒ سے ثابت نہیں ہوتے بلکہ امام ابو حنیفہؒ نے تو خود کبھی کوئی فقہ لکھی ہی نہیں لہذا یہ دونوں گروہ اپنے غلط عقائد کو زبردستی ابو حنیفہؒ پر تھوپ دیتے ہیں۔ سو یہ تقلید کا ایک منحوس چکر ہے جس میں قید ہونے کی وجہ سےدونوں فرقوں کے پیروکار اپنے اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کی قران و حدیث کی روشنی میں تحقیق کرتے ہیں اور نا ہی انہیں چیلنج کر پاتے ہیں۔
بریلویت سے موجودہ زمانے میں نکلی شاخ یا ایک اور فرقہ ڈاکٹر طاہر القادری اور اسکے پیروکار ہیں۔ انکے عقائد بریلویوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ یہ بریلویت کی ہی ایک ایڈوانس شکل ہیں اور ان میں آئے دن نئے نئے عقائد اور رسومات ایجاد کرنے کا رحجان بریلویت سےبھی  بہت زیادہ ہے۔ لہذا ڈاکٹر طاہر القادری کو موجودہ دور کا احمد رضا خان کہا جا سکتا ہے جس نے اب  اپنے پرستاروں اور پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد بنا لی ہے جو من و عن اسکی ہر بات پر لبیک کہتے ہیں اور یوں ایک فرقے سے ایک اور فرقہ وجود میں آگیا۔  ڈاکٹر طاہر القادری کےبہت سے ایجاد کردہ عقائد اوررسوم پر دیگر فرقوں کے ساتھ ساتھ بریلوی بھی معترض تھے لہذا دونوں گروہ اپنے اپنے پیروکاروں کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے بالکل ویسے ہی جیسے ایک زمانے میں بریلوی اور دیوبند دو علیحدہ گروہ بنے۔
اسی طرح دیوبند فرقے کا بھی اپنا ایک فنکشنل گروپ تبلیغی جماعت کے نام سے ہے جنکا عقائد پر تو ان سے کوئی اختلاف نہیں البتہ یہ دین کو عملی طور پر یا عبادات کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ بظاہر یہ بہت ہی اچھی بات ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیئے لیکن کیا عقائد کے معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یا قران و حدیث کے خلاف عقیدہ رکھنے کے بعد بھی عبادات کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے؟ مثلأ آپ نے جنید جمشید کو گانے بجانے سے نکال کرکپڑے کے کاروبار میں لگا کر اسکی آمدن تو حلال کر دی جو ایک بہت اچھا کام ہے لیکن پھر اسے شرکیہ نعتیں پڑھنے پر لگا دیا گیا اور سب سے ضروری بات یہ کہ کیا اسکا عقیدہ بھی درست کیا؟اب حال یہ ہے کہ اسکا کاروبار حلال ہے، لمبی داڑھی بھی ہے اسلام کی تعلیم بھی دیتا ہے اور نعتیں بھی پڑھتا ہے لیکن اس سب کے پیچھے جو عقائد ہیں وہ تو وہی ہیں کہ انبیاء اور اولیاء اپنی اپنی قبروں میں حیات ہیں اور پکاریں سنتے یا دعا میں وسیلہ بنتے ہیں۔ کیا یہ سب آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا کی عملی تصویر نہیں؟ الغرض یہ دونوں سنی  فرقے یعنی بریلوی اور دیوبند آپس میں بھی ہر وقت لڑتے ہیں اور اپنے مشترکہ حریفوں کے ساتھ بھی جن میں سر فہرست اہلحدیث یا سلفی ہیں اور یا پھر شیعہ۔
بالکل اسی انداز میں اہلحدیث و سلفی فرقہ پرست کے لئے ہر غیر اہلحدیث و غیرسلفی دین سے منحرف ہے۔ یہ بھی اپنے آپکو اصلی اہل سنت والجماعت ہی کہتے ہیں ۔  انکے زیادہ ترعقائد بظاہر تو بریلوی اور دیو بند سے مختلف ہیں لیکن اگر انکا بغور مطالعہ کیا جائے تو کچھ خاص فرق نہیں۔ ان میں بھی صرف اپنے علماء کی اندھی تقلید کا عنصر بہت نمایاں ہے حالانکہ بظاہر یہ اپنے آپکو غیر مقلد کہتے ہیں ۔ یہ ابتدا میں اپنے علماء کے حوالے سے تمام غلط تعلیمات کو یا جھٹلاتے ہیں یا چھپاتے ہیں لیکن اگر انکے کسی عالم کے عقائد قران و حدیث کی روشنی میں غلط ثابت ہو جائیں تو پھر ان میں اور کسی بریلوی یا دیوبند میں کوئی فرق نہیں۔ پھر یہ سرعام قران و حدیث کا انکار کرتے ہیں یا اپنے علماء ابن قیم اور ابن تیمیہ وغیرہ کے فتوؤں کو قران و حدیث پر فوقیت دیتے ہیں۔ یعنی عقائد کے معاملات میں اہلحدیث اور سلفی بھی وہی غلطی دہراتے ہیں جو بریلوی و دیوبند کرتے ہیں یعنی قران و حدیث کی روشنی میں اپنے علماء کے فتوی کا جائزہ لینے کی بجائے ہر ایسی صورتحال جہاں انکے عالم کا فتویٰ قران و حدیث کی روشنی میں چیلنج ہو جائے وہاں قران و حدیث کو ایک طرف کرکے فتوے کو پکڑ لیتے ہیں۔ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود پیش ہونے کا معاملہ ہے جہاں عقل کہتی ہے کہ دُرود ابراھیمی میں تو مخاطب ہی اللہ کو کیا جاتا ہے اور اسی طرح قران بھی کہتا ہے کہ تمام کام یا تمام عبادتیں صرف اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں لیکن چونکہ اہلحدیث علماء نے چند ضعیف احادیث کی بنیاد پر یہ کہ دیا کہ ہمارا پڑھا ہوا دُرود فرشتے لے جا کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کر دیتے ہیں تو بس اب ہر اہلحدیث و سلفی کے لئے اسے ماننا قران و حدیث سے بڑھ کر ہے۔ اسی طرح یہ بریلوی و دیوبند سے طاغوت کے انکار کے نام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو  دعا میں وسیلہ بنانے یا  شب برات منانے کے موضوعات پر ہر وقت  لڑتے ہیں اور انکے علماء پر کفر و شرک کے فتوے بھی لگاتے ہیں لیکن جب  کہا جائے کہ بھائی یہ عقائد توعبدالقاد ر جیلانی سے بھی ثابت ہیں تو  پھر تاویلات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے  لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ عبدالقادر جیلانی کو  بریلوی اور دیوبند کے علاوہ اہلحدیث علماء کی سرپرستی بھی حاصل ہے لہذا انکے خلاف بات کرنے کا مطلب اپنے اہلحدیث علماء کی باتوں کا  رد ّہے  لہذا پھر طاغوت کا انکار وغیرہ سب ایک طرف  ہو جاتا ہے اور تقلید مقّدم ہو جاتی ہے۔
سو یہ تمام فرقے ایک ہی طریقئہ کار کے مطابق چلتے ہیں یعنی یہ سب قران و حدیث پر چلنے کا دعوٰی تو کرتے ہیں لیکن یہاں  قران پر چلنے کا مطلب صرف  اپنے فرقے کے عالم کی تفسیر یا اسکی بات پر چلنا اور اسی طرح حدیث بھی صرف وہی صحیح ہوتی ہے جسے انکے اپنے علماءصحیح قرار  دے دیں اب چاہے اس روایت پر کتنے ہی محدیثین کی جرح پیش کردی جائےانکے لئے یہ حدیث سو فیصد صحیح اور شک و شبہے سے پاک ہی رہے گی۔ لہذا طااہر القادری یا طارق جمیل صاحب حدیث کے نام پر خواہ کوئی بھی داستان سنا دیں یا مبشر احمد ربانی جس حدیث کو صحیح یا ابن تیمیہ کے قول سے درست ٹہرا دیں بس وہی سچ اور باقی ساری دنیا جھوٹی ہوگی۔
اب ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ چونکہ بریلوی، دیوبند یا شیعہ کے عقائد ظاہری طور پر خراب نظر آتے ہیں اور اسی طرح یہ لوگ چھپ کر کوئی کام بھی نہیں کرتے یعنی ایک بریلوی ہمیشہ چھاتی ٹھونک کر آپکو کہے گا کہ ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور میری پکاروں کو سنتے ہیں اور تم کافر ہو اور جاؤ جو کرنا ہے کرلو! لیکن دوسری طرف اہلحدیث یا سلفی آپکو بظاہر ایک بات  بتائیں گے  لیکن اندر کچھ اور ہی عقیدہ ہوگا۔  مشلاً جب یہ کسی بریلوی سے بات کریں گے تو کہیں گے مُردہ تمہاری پکاریں نہیں سنتا لیکن جب انہیں کہا جائے گا کہ مُردے کے سننے کی حمایت تو ابن تیمبیہ اور ابن قیم وغیرہ سے بھی  ثابت ہے تو پھر  یہ کہیں گے کہ یہ ایک اور قسم کا سننا ہے وغیرہ۔ انکے اسی  انداز کی وجہ سے ہمارے ہاں عام طور پر وہ لوگ جو مزاروں وغیرہ پر نہیں جاتے وہ اہلحدیث یا سلفی گروہ سے جُڑ جاتے ہیں لیکن انکی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ یہ بظاہر تو مزاروں پر نہیں جاتے لیکن عقیدے انکے بھی  وہی ہیں۔
اسی لئے ہمارا اپنے قارئین کو یہی مشورہ  اور التجا ہے کہ  خدارا  ان فرقوں کے چکر سے اپنے آپکو آزاد کریں اور صرف اور صرف مسلم بن جائیں۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ نے کبھی اپنے آپکو سنی، سلفی یا اہلحدیث نہیں بلایا اسلئے ہمارے لئے بھی بہترین طریقہ انکے نقش قدم پر چلنا  ہی ہے تاکہ دین کو خود قران و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اسی طرح ہمیں بحیشیت مجموعی ان ایشوز پر بات چیت کرنے کا  انفرادی اور اجتماعی حوصلہ پیدا کرنا ہوگا تبھی ہم   سیکھنے اور سکھانے کا ماحول پیدا کر پائیں گے خاص طور پر ان موضوعات پر جن کی بنیاد پر قیامت کے دن  جنت اور جہنم کے فیصلے ہونگے۔ یہ حجاب یا داڑھی کی لمبائی کے معاملات ان لوگوں کے لئے  اہم ہیں جنہوں نے اپنا عقیدہ درست کر لیا ہے اور خالص توحید کو اپنا لیا ہے۔ لہذا ان اعمال کی جانب چلنے سے پہلے اپنے ایمان کی درستگی اور پھر طاغوت یعنی ایسے تمام غلط عقائد رسومات اور ان کے موجد ان فرقوں کا رد کرنا ضروری ہے۔ جس نے یہ  بنیادی کام ہی نا کیا تو اسکا ایمان مکمل نہیں اور پھر چاہے جتنی چاہے عبادت کر لیں اسکا کوئی حاصل نہیں ہوگا کہ عبادات تو صرف اہل ایمان پر فرض ہیں جو توحید پر قائم ہوں۔
آخر میں ایک  اہم بات یہ کہ یہاں یہ سب لکھنے کا مقصد  یہ نہیں کہ اب ہم ہر کسی کو کافر و مشرک لیبل کرنے لگیں بلکہ اصل طریقہ یہ ہے کہ لوگوں یعنی اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو عقائد کی درستگی اور طاغوت کے انکار کی طرف نہایت محبت اور خلوص سے دعوت دی جائے اور انہیں اسکی اہمیت اور ایمان کی تکمیل کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ ویسے بھی ایک دوسرے کو کافر و مشرک پکارنے کا کام  تو ہم اپنے چاروں طرف دیکھتے ہی ہیں کہ  آج ہر فرقہ یہہی کام کرتا ہے سو ہمیں اس سب سے بالاتر ہونا ہوگا،  البتہ بالاتر ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر عجیب و غریب عقیدے یا رسم کو دین کے نام پر قبول کرلیا جائے جیسا کے عالم آن لائین ٹائپ شوز اور اینکرز کی اتحاد بین المسلمین کی پالیسی ہوتی ہے۔ کیونکہ غلط عقائد کا رد تو ہر صورت کیا ہی جائے گا لیکن اسکے لئے لوگوں کو چھانٹا  مارنا ، انکے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اپنانا یا انکا تمسخر اڑانا قطعی غلط طریقہ ہے۔ ہمیں نرمی اور محبت سے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانا ہی ہوگا کہ اللہ تو قران میں ارشاد فرماتا ہے ’’ اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ سورة التحریم ٦‘‘۔  لہذا غلط عقائد اور رسم و رواج کا انکار کرنا ،  اپنے پیاروں کو جہنم سے بچانے کی کوشش کرنا اور اس دوران پیش آنے والی مصیبتوں یا سخت روّیے کو خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کرنا ہی ہوگا جیسا کہ سورۃ العصر میں ارشاد ہوا۔ یہ  کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ نے کیا اور یہی ہر صحیح العقیدہ مسلم پر بھی فرض ہے۔
حذیفہ بن الیمان ؓ سے سنا ‘انہوں نے بیان کیا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا ۔ اس خوف سے کہ کہیں میری زندگی میں ہی شر نہ پیدا ہو جائے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو  کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا زمانہ ہو گا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ۔ میں نے پوچھا کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا زمانہ آئے گا ؟ نبیﷺ نے فرمایا ہاں لیکن اس خیر میں کمزوری ہو گی ۔ میں نے پوچھا کہ کمزوری کیا ہو گی ؟ فرمایا کہ کچھ لوگ ہوں گے جو میرے طریقے کے خلاف چلیں گے ‘ ان کی بعض باتیں اچھی ہوں گی لیکن بعض میں تم برائی دیکھو گے ۔ میں نے پوچھا کیا پھر دور خیر کے بعد دور شر آئے گا ؟ فرمایا کہ ہاں جہنم کی طرف سے بلانے والے دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے ‘ جو ان کی بات مان لے گا وہ اس میں انہیں جھٹک دیں گے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! ان کی کچھ صفت بیان کیجئے ۔ فرمایا کہ وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری ہی زبان عربی بولیں گے ۔ میں نے پوچھا پھر اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو آپ مجھے ان کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہنا ۔ میں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو ؟ فرمایا کہ پھر ان تمام فرقوں سے الگ ہو جانا خواہ تمہیں جنگل میں جا کر درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہاری موت آ جائے ۔ صحیح البخاری ، کتاب الفتن

Post a Comment

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget