عید میلاد النبیﷺ ۔ غلط عقائد ۔ حصہ دوم


اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے دیکھا کہ کیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ منانا ایک بدعت ہے اور کسطرح ایک مسلم کوہر حال میں ایسے کام سے دُور رہنا چاہیئے۔ مناسب ہوگا اگر اب اپنے قارئین کی توجہ ان غلط عقائد کی طرف بھی مبذول کرائیں جو میلاد کی اس بدعت سے جُڑے ہیں۔
 ١۔ میلاد منانے والوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں۔ اس عقیدے کو ہم نے بڑی تفصیل سے اپنے برزخ سے متعلق مضمون میں بیان کیا ہے کہ کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام انسانوں کی طرح بشریت کے تقاضوں کے مطابق وفات پائی اور اب وہ جنت میں سب سے افضل الوسیلہ کے مقام پر ہیں۔ لہذا اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ زندہ ہیں اور دنیا میں حاضر و ناظرہیں یہ قطعی غلط اور قران کی مندرجہ ذیل آیت کا کھلا کفر ہےجسے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر تلاوت کیا۔ اس واقعے کو امام بخاری بھی اپنی صحیح میں لائے ہیں۔

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ

اور محمد تو ایک رسول ہے اس سے پہلے بہت رسول گزرے پھرکیا اگر وہ مرجائے یا مارا جائے تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھر جائے گا تو الله کا کچھ بھی نہیں بگاڑے گا اور الله شکر گزاروں کو ثواب دے گا۔ سورۃ آل عمران آیت ۱٤٤

عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ابوبکر ؓ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے ۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ ؓ کے حجرہ میں آئے جہاں نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی اور نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے ۔ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادرسے ڈھانک دیا گیا تھا ۔ پھر آپ نے رسول اللہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے ۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی، اللہ تعالیٰ دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرے گا ۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سو آپ وفات پا چکے ۔ ابوسلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس ؓ نے خبر دی کہ ابوبکر ؓ جب باہر تشریف لائے تو عمر ؓ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے ۔ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ اے قسم کھانے والے بیٹھ جاؤ ۔ لیکن حضرت عمر ؓ نہیں مانے ۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا ۔ لیکن حضرت عمر ؓ نہیں مانے ۔ آخر حضرت ابوبکر ؓ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہو گیا اور حضرت عمر ؓ کو چھوڑ دیا ۔ آپ نے فرمایا امابعد  اگر کوئی شخص تم میں سے محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ باقی رہنے والا ہے ۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں ۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے ” اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں “ الشاکرین تک  آپ نے آیت تلاوت کی۔ اللہ کی قسم ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر ؓ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے ۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی ۔ صحیح بخاری، کتاب الجنائز


٢۔ پھر مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ اس خلاف قران وحدیث کےعقیدے کو مزید آگے بڑھا کر مردہ کے وسیلہ یا توسل جیسی خرافات سے جوڑ دیا جاتا ہے یعنی چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ اور دنیا میں حاضر و ناظر ہیں تو پھر انہیں دعاؤں میں وسیلہ بھی بنا لیا جائے۔ اسی لئے میلاد منانے والوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اللہ کی مرضی سے ملنے والی شفاعت سے پہلے اس دنیا میں بھی وسیلہ بن سکتے ہیں اور اللہ سے اپنے اُمتیوں کے لئے دعا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کسی بھی مُردہ انسان کو مدد کے لئے پکارنا یا دعا میں وسیلہ بنانا شرک ہے کیونکہ دعا میں تو ہمیشہ صرف باری تعاٰلی کہ ہی پکارا جاتا ہے اور اسے اسکے کے اپنے ناموں اور صفات کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ اور مشرکین مکہ بھی تو اسی وسیلے کے شرک میں ہی مبتلا تھے ورنہ دین ابراھیمی پر چلنے پر کا دعوٰی تو وہ بھی کرتے تھے لیکن پھر بھی قران انہیں مشرکین بلاتا ہے۔

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

اور الله کے سوا اس چیز کی پرستش کرتے ہیں جونہ انہیں نقصان پہنچا سکے اورنہ انہیں نفع دے سکے اور کہتے ہیں الله کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہیں کہہ دو کیا تم الله کو بتلاتے ہو جو اسے آسمانوں اور زمین میں معلوم نہیں وہ پاک ہے اوران لوگو ں کے شرک سے بلند ہے۔ سورۃ یونس، آیت ۱۸
پھر مزید یہ کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اُمتیوں کی پکاروں کو سنتے بھی ہیں۔ ظاہر ہے جب لوگوں کو یہ کہ دیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ بھی ہیں اور دنیا میں ہر جگہ آتے جاتے بھی ہیں تو پھر لوگ تو انہیں پکاریں گے ہی۔ لیکن یہ عقیدہ بھی قران کی مندرجہ ذیل آیات کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

البتہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا اور نہ بہروں کو اپنی پکارسنا سکتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹیں۔ سورۃ النمل، آیت ۸۰

يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَ‌ٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ۔ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے ہر ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے یہی الله تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ ایک گھٹلی کے چھلکے کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دیتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے اور تمہیں خبر رکھنے والے کی طرح کوئی نہیں بتائے گا۔ سورۃ فاطر، آیات ۱۳۔۱٤

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں۔ سورۃ فاطر، آیت ۲۲

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ۔ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ

اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو الله کےسوا اسےپکارتا ہے جو قیامت تک اس کے پکارنے کا جواب نہ دے سکے اور انہیں ان کے پکارنے کی خبر بھی نہ ہو۔ او ر جب لوگ جمع کئےجائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔ سورۃ الاحقاف، آیات ۵۔٦

٤۔  اسی طرح عید میلاد کی ان تمام رنگا رنگ تقریبات اور اسراف کے پیچھے مُریدوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح میلاد کی ان محفلوں میں آتی جاتی ہے اور اسکے استقبال کے لئے میلاد کے تمام حاضرین کھڑے ہو کر آخری درود و سلام پڑھتے ہیں تاکہ اس اہتمام کو دیکھ کر روح رسول ان کے حق میں اللہ سے دعا کرے۔ اسی لئے تویہ دن رات الاپتے پھرتے ہیں کہ ’’سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں ، میرے گھر میں بھی ہو جائے اُجالا یا رسول اللہ‘‘۔ لیکن ایک بار پھر اگر قران خود کھول کر پڑھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ بھی دیگر کہانیوں کی طرح قران کے خلاف ہے کیونکہ ذیل کی آیت بتاتی ہے کہ مرنے والوں اور زندوں کے درمیان قیامت تک برزخ حائل ہے جسے پھلانگنا ممکن نہیں۔

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے گی تو کہے گا اے میرے رب مجھے پھر بھیج دے۔ تاکہ جسے میں چھوڑ آیا ہوں اس میں نیک کام کر لوں ہر گز نہیں ایک بات ہی بات ہے جسے یہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے قیامت تک ایک برزخ حائل ہے۔ سورۃ المومنون ۹۹۔۱۰۰

اسی طرح صحیح احادیث بھی یہی بتاتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ علم نہیں ہوگا کہ لوگ انکی وفات کے بعد دنیا میں کیا کیا کرتے رہے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے سہل بن سعد سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ میں حوض کوثر پر تم سے پہلے رہوں گا جو وہاں پہنچے گا تو اس کا پانی پئے گا اور جو اس کا پانی پی لے گا وہ اس کے بعد کبھی پیاسا نہیں ہو گا ۔ میرے پاس ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ ڈال دیا جائے گا ۔ ابوحازم نے بیان کیا کہ نعمان بن ابی عیاش نے بھی سنا کہ میں ان سے یہ حدیث بیان کر رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ کیا تو نے سہل ؓ سے اسی طرح یہ حدیث سنی تھی ؟ میں نے کہا کہ ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابو سعید خدری ؓ سے یہ حدیث اسی طرح سنی تھی ۔ ابوسعید اس میں اتنا بڑھاتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا تبدیلیاں کر دی تھیں ؟ میں کہوں گا کہ دوری ہو دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کر دی تھیں ۔ صحیح بخاری ، کتاب الفتن

الغرض عید میلاد کی اس بدعت کی مثال اس لحاظ سے کافی کارآمد ہے کی اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے دینِ اسلام میں بدعت کی ممانعت کیوں کی گئی ہے۔ بدعت ناصرف بہت سے غلط عقائد اور رسومات کو جنم دیتی ہے بلکہ اس سے کسی قوم میں دینی کے بنیادی علم کے حوالے سے کمی کا بھی پتہ چلتا ہے لہذا میلاد کی یہ رسم ہر زاویے سے غلط کاری ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی غلطیوں کو پہچاننے اور ایسی تمام بدعات سے دُور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وما علینا الالبلاغ۔

Labels:

Post a Comment

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget